
ایک قابل تقلید مثال – محمد شریف شکیب
ایک قابل تقلید مثال – محمد شریف شکیب
عیدالاضحی کے دن سویڈن کے شہر سٹاک ہوم میں ایک بدبخت عدالت سے اجازت لے کر جامع مسجد کے سامنے قرآن پاک جلانے کی ناپاک جسارت کی تھی۔جس کے خلاف مسلم دنیا ہی نہیں یورپی ممالک میں بھی احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ قرآن پاک کو جلانے کا بدلہ لینے کے لئے وہاں کے ایک مقامی مسلمان نوجوان احمد الوش نے عدالت میں درخواست دی کہ جس طرح اظہار رائے کی آزادی کے تحت قرآن پاک کو جلانے کی اجازت دی گئی اس طرح اسے بھی تورات اور انجیل کو نذر آتش کرنے کی اجازت دی جائے۔ عدالت نے احمد کو اجازت دیدی۔عدالتی فیصلےپر عیسائی اور یہودی آبادی میں تشویش اور غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔
احمد الوش نے عدالتی فیصلے کے مطابق تورات اور انجیل کو جلانے کے لئے مقام اور وقت کا تعین کردیا۔ مقررہ وقت پر ہزاروں کی تعداد میں یہودی اور عیسائی وہاں جمع ہوگئے۔ احمد الوش ایک بیگ اٹھائے وہاں پہنچے انہوں نے بیگ سے تورات اور انجیل نکالا اس کے ایک ہاتھ میں تورات اور انجیل اور دوسرے ہاتھ میں لائٹر تھا۔پورا مجمع دم بخود اسے دیکھ رہا تھا۔اچانک احمد الوش نے اپنے ہاتھ سے لائٹر دور پھینک دیا۔اور اپنے بیگ سے قرآن پاک بھی نکالا اسے چوما اور سینے سے لگا دیا۔ احمد نےاعلان کیا کہ وہ تورات اور انجیل کو جلانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔کیونکہ دونوں آسمانی کتابیں ہیں اور ان کی گواہی قرآن مجید نے دی ہے۔ اللہ تعالی کی نازل کردہ دونوں کتابیں اس کے لئے مقدس اور قابل احترام ہیں۔
انہوں نے عدالت سےتورات اور انجیل جلانے کی اجازت اس لئے لی تھی کہ غیر مسلموں کو بتاسکے کہ یہودیوں کے لئے تورات اور عیسائیوں کے لئے انجیل جس قدر مقدس اور قابل احترام ہے مسلمانوں کے لئے قرآن مجید اس سےہزار گنا زیادہ قابل احترام ہے۔ اوراس کی توہین پر پورے عالم اسلام غم زدہ اور رنجیدہ ہے۔احمد الوش کے اس اعلان پر وہاں پر موجود ہزاروں افراد نے انہیں دادوتحسین پیش کیا اور پوری دنیا میں اس عمل کا نہ صرف سراہا گیا بلکہ اسے ایک قابل تقلید مثال قرار دیا گیا۔بلاشبہ یہی وہ طرزعمل ہے جس کے ذریعے ہم دنیا کو باور کراسکتے ہیں کہ اسلام امن و سلامتی اور احترام انسانیت کا درس دیتا ہے ۔سرکار دو عالم کی توہین یا قرآن پاک کی بے حرمتی کےخلاف احتجاج کرنا ہر مسلمان کا ایک فطری عمل اور ایمان کا تقاضا بھی ہے مگر احتجاج کا طریقہ مہذب ، سبق آموز اور تعلیمات اسلام کےدائرے میں ہونا چاہئے۔ سویڈن، فرانس اور دیگر یورپی ملکوں مین آئے روز اظہار رائے کی آزادی کے نام پر شعائر اسلام کی توہین کے واقعات پیش آتے ہیں۔
ایمان مفصل میں ہم اقرار کرتے ہیں کہ ” میں اللہ تعالی پر ایمان لایا۔اللہ تعالی کے پیدا کردہ فرشتوں ، اللہ کی نازل کردہ کتابوں، رسولوں، قیامت کے دن پر ایمان لایا۔اور اس بات پر بھی ایمان لایا کہ خیر اور شر اللہ تعالی کی طرف سے ہے”اسلام سے ناواقف دنیا کو یہ پیغام دیناوقت کی ضرورت ہے کہ ہم تمام مذاہب، ان کے پیشواوں، ان کی مقدس کتابوں ، ان کی عبادت گاہوں اور ان کے مذہبی اقدار کا احترام کرتے ہیں اور دنیا سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہماری اقدار، قرآن کریم اور ہمارے آخری نبی ختم المرسلین، خاتم النبین حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا احترام کریں۔
سویڈن کے مسلمان نوجوان احمد الوش نے اپنے عمل سے سچے مسلمان ہونے کا ثبوت دیا ہے اور ان کے اس عمل سے اغیار کو اسلام کا اصل چہرہ دیکھنے، سمجھنے اور سوچنے کا موقع ملا ہے۔حقائق بتارہے ہیں کہ اسلام تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن گیا ہے اور مغربی ممالک اسلام کو اپنے لئے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں اسلامی شعائر کی توہین کی جاتی ہے۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں اسلامو فوبیا کے پھیلاو کے خلاف اقوام نے بھی قرار داد منظور کرلی ہے۔مختلف ممالک کے سربراہوں نے بھی مذہبی دل آزاری پر مبنی واقعات کی مذمت کی ہے۔ لیکن بعض یورپی ممالک میں آزادی اظہار رائے کے نام پر اپنے شہریوں کو دوسروں کے مذہبی جذبات سے کھیلنے اور ان کے شعائر کا مذاق اڑانے کی اجازت دے رکھی ہے۔ جس کے خلاف عالمی ادارے کو سخت موقف اپنانا چاہئے۔