Chitral Times

Sep 30, 2023

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

روٹی نامہ – پروفیسرعبدالشکورشاہ

Posted on
شیئر کریں:

روٹی نامہ – پروفیسرعبدالشکورشاہ

چھان مارے ہیں فلسفے سارے
دال روٹی ہی سب پہ بھاری ہے

بھوک کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں
اک روٹی کی خوشبو عشق پہ بھاری ہے

 

اندازاآج سے 3000 سال پہلے مصر میں ڈبل روٹی کی شروعات ہوئی تھی۔ وہاں کے لوگ گندھے ہوئے آٹے میں گھی اور کھانے کے سوڈا ملی ٹكيا کو بھٹی میں پکا کر روٹی بناتے تھے۔ اسی طرح روٹی بنانے کے نمونے مصر کے مقبروں میں بھی ملتے ہیں۔اگرآزادکشمیر میں موجودہ آٹا بحران ختم ناہوا تو ہم بھی مقبروں میں ہی ملیں گے۔مجھے اس بات پہ تعجب ہے اس دور کے فرعونوں کو آٹا شارٹ اور ناپید کرنے کا خیال کیوں نہیں آیا؟! چلیں اچھا ہوا اگر سارے نظریات کے بانی وہی ہوتے پھر 2023 کے فرعون بیچارے کیا کرتے۔الگ الگ ملکوں میں الگ الگ مواد سے روٹی تیار کی جاتی ہے جبکہ ہمارے ہاں اسے رو رو کے تیار کیاجاتا ہے اور ترسا ترسا کر فراہم کیا جاتا ہے۔اب ہمیں یہ فکر لاحق ہوچکی ہے مرنے کے بعد روٹی کا انتظام ہوگا بھی یا نہیں۔ہمارے ہاں ہر سائز،مسلک،رنگ،زبان،قانون،سیاست،منتظمہ،مقننہ،ادب،صحافت لوکل اور امپورٹڈ ہر قسم کےفرعون پائے جاتے ہیں۔قدیمی فرعون بچے قتل کرتا تھا اور 2023 کے جدید فرعون بچے،بوڑھے،عورتیں،مرد سبھی کو فاقوں مارنے کے درپے ہیں۔

 

سیاست کی طرح روٹی کے بھی بیشمار روپ ہیں۔اس کے حصول کے لیے نت نئے جتن کیے جاتے ہیں۔ بھوکا دوستوں کو نہیں پہچانتا بلکہ روٹی دینے والے کو پہچان لیتا ہے۔بھوکا انسان کانا،اندھا اور بہرہ ہوتا ہے اس کی آنکھ ،کان،ناک،زبان،دل اور عقل سب روٹی ہے۔جب غربت اور فاقے دیواروں میں بسیرا کرلیں تب عشق کھڑکی سے باہر چھلانگ لگاجاتا ہے۔اس لیے کہتے ہیں روٹی کی بھوک عشق کی بھوک سے زیادہ طاقتور ہے۔اگر ہم ٹھنڈے دل سے زندگی میں خوشی کا تعین کرنا چاہیں تو روٹی ہی خوشی کا دوسرا نام ہے۔پنجاب کی شادیوں میں ایک جملہ بڑا پرکشش ہے”روٹی کھول دو” حکومت نےثقافتی اہمیت کے اس جملے کا متضاد بھی پیش کردیا ہے”روٹی بند کردو”۔دھیرے دھیرےروٹی،کپڑا اور مکان کی ترتیب تو سمجھ آنے لگی ہے “روٹی” ناپید ہوچکی،اس کے بعد تن ڈانپنے والے کپڑے کی باری ہے پھر دوگز کے مکان میں پھینک دیں گے۔ناقص منصوبہ بندی،حکومتی سیٹ اپ کی عدم موجودگی،انتظامیہ کی سست روی اور مافیا کی من مانیوں نے عوام سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی ہے۔

 

رہی سہی کسر محکمہ خوراک کی جعلسازیوں، رشوت خوریوں،ذخیرہ اندوزیوں اور اقربہ پروری نے نکال دی ہے۔باقی ماندہ کام ڈپو انچارج اور ڈیلرز مکمل کرلیتے ہیں۔تیزی سے بڑھتی ہوئ آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے نا تو آزادکشمیر حکومت کے 10 اضلاع، اس کی تحصیلوں اور یونین کونسلز کے لیے مختص کردہ کوٹے میں تبدیلی کی اور نا ہی حکومت آزادکشمیر نے پاکستان سے ملنے والی گندم کے کوٹے میں اضافے کی کوشش کی۔آسمان سے گرا کھجور پہ اٹکا مرتا کیا نہ کرتا سیاحت اور بکروالوں نے صورتحال کو مزید گھمبیر کردیا ہے۔سیاحت کے حوالے سے حکومتی دعوے بڑے بلندوبالا ہیں مگر سیاست کے چرچے کرتے وقت ان کی عقل قلیل میں یہ بات کیوں نہیں آئ اگر سالانہ لاکھوں سیاح آئیں گے وہ معدہ گھر چھوڑ کے تو نہیں آئیں گے۔آزادکشمیر کو ملنے والی گندم پر کٹ لگنے،سرکاری و نیم سرکاری راشن چور،سمگلرز،سیاسی بندر بانٹ اور دیگر مافیا سے بچ بچا کر جو مقدار کشمیر تک پہنچتی ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہوتی ہے۔حکومتی و سرکاری نوٹیفکیشن دیکھے جائیں تو بہترین دعوے ہیں مگر عملی طور پر کچھ بھی نہیں۔سب انتظام و اقدامات سرکاری دفاتروں اور فائلوں تک محدود ہیں۔

 

سیاحت اب ایک مکمل صنعت بن چکی ہے۔بے شمار ہوٹلز،ریستوران،گیسٹ ہاوسسز،کیفے وغیرہ نےآٹے کی کھپت کئ گنابڑھا دی ہے۔حکومت فائلوں میں ان کو کمرشل آٹا فراہم کرنے کی دعویدار ہے جبکہ ایسا ہے نہیں۔یہ سب سبسبڈائزڈ آٹا ہی استعمال کرتے ہیں اور اس کالے فعل میں محکمہ خوراک کے افسران،مقامی ڈیلرز اور کچھ مقامی دیہاڑی باز اور عام لوگ بھی شامل ہیں۔سبسڈی والا آٹا خرید کر ہوٹلز اور گیسٹ ہاوسسز کو بیچا جاتا ہے۔ان ہوٹلز اور گیسٹ ہاوسسز کے علاوہ ٹینٹ ویلج میں بھی یہی آٹا سپلائ ہوتا ہے۔محکمہ خوراک تو عوام کو آتا فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے کمرشل آٹا کہاں سے لائیں گے۔ان سب کی ملی بھگت نے عام آدمی کو فاقوں پر مجبور کردیا ہے۔جائیں تو جائیں کہاں؟ نا وزیر خوراک ہے نا سیکریٹری خوراک ہے، ہمارے وزیراعظم صاحب وزارتوں پر بل مار کر بیٹھے ہیں۔آٹا ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں سمگل ہورہا ہے۔کئ بار میڈیا نے بمعہ ثبوت آواز بلند کی مگر کاروائ تو تب ہوتی جب کاروائ کرنے والے شریک جرم نہ ہوتے۔

 

کئ جگہوں پرسمگل ہوتا آٹا ضبط کیا گیا مگر کاروائ کا کہیں نام و نشان تک نہیں۔حکومت سب کی ہے اور کسی کی بھی نہیں البتہ عوام کا کوئ پرسان حال نہیں ہے۔اگر اس صورتحال پر قابو نا پایا گیا تو انقلاب فرانس کی طرح عوام محلات میں داخل ہوکر ان کی گردنیں روٹی کے لیے کاٹے گی کیونکہ بھوک سے بڑا کوئ اور جنون نہیں ہے۔آبادی میں اضافےکے تناسب سے آٹے کی سپلائ میں اضافہ کیا جائے۔سیاحت سے وابستہ شعبہ جات اور خانہ بدوشوں کے لیے ان کی کھپت کے تناسب سے کمرشل آٹے کی الگ سے سپلائ فراہم کی جائے۔آٹے کی ایک مخصوس مقدار سرکاری سپلائ میں سٹاک کی جائے بالخصوص کنٹرول لائن اور شدید موسمی حالات والے خطوں میں۔پاکستان سے گندم کے کوٹے میں اضافہ کروانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔آٹا مافیا کو کنٹرول کرنے کے لیے ٹھوس اور قابل عمل حکمت عملی ترتیب دی جائے۔محکمانہ چیک اینڈ بیلینس کے نظام کو شفاف بنانے کے ساتھ اس میں جدت لائ جائے۔آٹے کے بحران والے علاقے کے فوڈانسپیکٹر کو جوابدہ بنایا جائے۔آٹے کی سمگلنگ روکنے کے لیے میکنزم تیار کیا جائے تاکہ عوام کو کچھ ریلیف مل سکے ورنہ مستقبل میں قبر کے کتبے کچھ یوں لکھے جائیں گے۔وجہ وفات بھوک، قاتل سرکار،شریک جرم محکمہ خوراک، معاونین جرم فوڈ انسپیکٹر و ڈیلرز۔متوفی رب کی عدالت میں ان افراد کی آمد کا منتظر ہے۔


شیئر کریں: