
نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ جولائی کے اختتام تک بجلی کی پیداوار دوبارہ شروع کردے گا
نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ جولائی کے اختتام تک بجلی کی پیداوار دوبارہ شروع کردے گا
اسلام آباد( چترال ٹایمزرپورٹ )نیلم جہلم پن بجلی کے 969میگاواٹ پیداوارکا منصوبہ جولائی کے آخر تک بجلی کی پیداوار دوبارہ شروع کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے، منصوبے کی ٹیل ریس ٹنل میں بحالی کا کام تقریبا مکمل ہوگیاہے۔چیئرمین واپڈا انجینئر لیفٹیننٹ جنرل (ر) سجاد غنی نے ہفتہ کو نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا تفصیلی دورہ کیا تاکہ ٹیل ریس ٹنل کو مضبوط بنانے کے لیے کئے گئے بحالی کے کاموں اور منصوبے سے بجلی کی پیداوار دوبارہ شروع کرنے سے متعلق تیاریوں کی سطح کا تفصیلی جائزہ لیا جا سکے۔ دورے کے دوران چیف ایگزیکٹو آفیسر، پراجیکٹ ڈائریکٹر،کنسلٹنٹس اور کنٹریکٹرز بھی موجود تھے۔ پراجیکٹ کی بحالی کی ٹیم نے چیئرمین کو بریفنگ دی کہ ٹیل ریس ٹنل کے منہدم ہونے والے علاقے میں کنکریٹ کی لائننگ کا کام مکمل کر لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 3.5 کلومیٹر لمبی سرنگ میں باقی متاثرہ حصوں کو بھی مضبوط بنایا گیا ہے۔ٹیل ریس ٹنل کی صفائی اور فنشنگ کا کام اگلے ہفتے شروع کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد پریشرائزیشن یعنی ٹیل ریس ٹنل میں پانی جمع کرنا شروع کر دیا جائے گا جس سے پراجیکٹ سے بجلی کی پیداوار کا آغاز ہو جائے گا۔ چیئرمین نے پراجیکٹ ٹیم کو ہدایت کی کہ وہ سٹینڈرڈ آپریٹنگ طریقہ کار (ایس او پی) اور ٹیل ریس ٹنل پر پریشرائزیشن اور پروجیکٹ سے بجلی کی پیداوار کو موثر طریقے سے دوبارہ شروع کرنے کے لیے بین الاقوامی ماہرین کی طرف سے دی گئی گائیڈ لائنز پر عمل کیا جائے۔نیلم جہلم ایک رن آف دی ریور ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ہے، جس نے اپریل 2018 میں بجلی کی پیداوار شروع کی تھی۔ پچھلے سال اس کی ٹیل ریس ٹنل کے ایک حصے کے گرنے کی وجہ سے بجلی کی پیداوار معطل ہونے سے پہلے، یہ منصوبہ نیشنل گرڈ کو 18 ارب یونٹ سے زائد بجلی فراہم کر چکا ہے۔
فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل: 6 رکنی لارجر بینچ 18 جولائی کو سماعت کرے گا
اسلام آباد (سی ایم لنکس) چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ 18 جولائی کو فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کرے گا۔ وفاقی حکومت کے وکیل اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اپنے دلائل دیں گے۔ اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت میں فوجی حراست میں موجود 102 افراد کے ناموں کی تفصیلات عدالت میں جمع کروائی تھیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ 18 جولائی کو فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کرے گا۔جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ کا حصہ ہیں۔وفاقی حکومت کے وکیل اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اپنے دلائل دیں گے۔ اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت میں فوجی حراست میں موجود 102 افراد کے ناموں کی تفصیلات عدالت میں جمع کروائی تھیں۔گزشتہ سماعت پر عدالت عظمیٰ نے گرفتار افراد کا اہلخانہ سے ٹیلیفون پر رابطہ کروانے کی ہدایت کی تھی۔یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، سینیئر وکیل اعتزاز احسن، سول سوسائٹی کے ارکان اور چیئرمین تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔
درخواست گزاروں نے عدالت عظمیٰ سے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔27 جون کو ہونے والی سماعت کے موقع پر بینچ کے رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے کی تجویز دی تھی۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت کے موقع پر درخواست گزاروں کی جانب سے فوجی عدالتوں میں ٹرائل روکنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کیس کی کاروائی جولائی کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کی تھی۔کیس میں اب تک تمام درخواست گزاروں کے وکلا کے دلائل مکمل ہو چکے ہیں، وفاقی حکومت کے وکیل اٹارنی جنرل، وزیراعظم، وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کے وکلا آئندہ سماعت پر دلائل دیں گے جس کے بعد کیس کی سماعت اگلے ہفتے کیس کی مکمل ہونے کا امکان ہے۔یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس پر فیصلے تک آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت مقدمات سننے سے معذرت کی تھی اور جسٹس سردار طارق مسعود نے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اس مؤقف کی تائید کی تھی۔ جسٹس منصور علی شاہ وفاقی حکومت کے اعتراض کے بعد بینچ سے الگ ہو گئے تھے۔