
داد بیداد ۔ انتخا بات کا ما حول ۔ ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی
داد بیداد ۔ انتخا بات کا ما حول ۔ ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی
آئین کی رو سے مو جو دہ اسمبلیوں کی مدت اگست کے مہینے میں ختم ہو رہی ہے اور آئین کے مطا بق نئے انتخا بات ہونے چا ہیں لیکن ہما را سیا سی کلچر پختہ نہ ہو نے کی وجہ سے برسراقتدار جما عت کی طرف سے انتخا بات نہیں ہو سکتے نگران حکومت لا نے کی ضرورت پڑ تی ہے جو دنیا کے کسی دوسرے جمہو ری ملک میں کبھی کسی نے نہیں سنا کسی نے نہیں دیکھا نگران حکومت آنے کے بعد انتخا بات کا ما حول بن جا تا ہے مگر اس ما حول میں سیا سی بلو غت اور عوامی فلا ح و بہبود یا منشور اورپرو گرام یا ایجنڈے کی سیا ست نہیں ہو تی الزا مات،جوا بی الزامات اور گا لی گلو چ کی سیا ست ہو تی ہے پرو گرام اور منشور کی جگہ چار پا نچ شخصیات کا نا م لیا جا تا ہے انتخا بی مہم شخصیا ت کے گرد گھو متی ہے انگر یزی میں مشہور مقولہ ہے عقلمند لو گ معا ملات اور واقعات پر بات کر تے ہیں کم عقل لو گ صرف شخصیات پر بات کر تے ہیں اگر 2023کے انتخا بات کو مفید اور با مقصد بنا نا ہے تو انتخا بات سے پہلے تما م سیا سی قو توں کو ایک مشترکہ لا ئحہ عمل پر اتفاق رائے پیدا کرنا چا ہئیے
گزشتہ 75سالوں کے تجربات اور خا ص طور پر 1977سے لیکر 2018ء تک 41سالوں کے تلخ ترین اسباق کو سامنے رکھ کر نئے لا ئحہ عمل پر غور کیا جا ئے تو دوا ہم باتوں کا ذکر ضروری معلوم ہو تا ہے پہلی بات یہ ہے جلسے جلو سوں اور ریلیوں نے انتخا بی مہم کو بہت مہنگا تما شا بنا دیا ہے ایک جلسے پر 5سے لیکر 7ارب روپے تک خر چ ہو تا ہے کوئی معقول سیا سی کا رکن یا کوئی معقول سیا سی جما عت اس خر چ کو بر داشت نہیں کر سکتی 20کروڑ روپے کا سٹیج بنا یا جا تا ہے 5کروڑ روپے کی کر سیاں بچھا ئی جا تی ہیں بجلی کے اخرا جا ت 10کروڑ روپے سے اوپر ہو تے ہیں بسوں اور گاڑیوں کے انتظام پر 2ارب روپے لگتے ہیں جلسوں کے لئے سامعین اور حا ضرین بھی دیہا ڑی دیکر لائے جا تے ہیں پھر ہر جلسے کو اخبارات اور ٹی وی چینلو تک پہنچا نے اور سوشل میڈیا پر چڑھا نے کے لئے پا نی کی طرح روپیہ، پیسہ بہا یا جا تا ہے جلسے کا حا صل کیا ہو تا ہے؟
سیا سی جما عتوں اور سیاسی شخصیات کی با ہمی دشمنی میں مزید اضا فہ ہو جا تا ہے روا داری کی جگہ مزید رقا بت لے لیتی ہے اس لئے عقل و دانش اور فہم و فراست کے ساتھ سیا سی سمجھ بوجھ اور حکمت کا تقا ضا یہ ہے کہ تما م سیا سی جما عتیں مل کر اتفاق رائے سے جلسوں، جلو سوں اور ریلیوں کو ختم کرنے کا بر ملا اعلا ن کریں تا کہ با ہمی روا داری کے ما حول میں صاف ستھرے انتخا ب ہوں انتخا بات کے نتیجے میں مزید تلخی اور دشمنی پیدا نہ ہو جلسے جلو سوں کی جگہ ریڈ یو، ٹیلی وژن، اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا پر وگرام اور اپنا منشور رائے دہند گان تک پہنچائیں اس کے دو فائدے ہونگے الیکشن میں کھر بوں روپے کے غیر ضروری اخراجا ت کی بچت ہوگی پارٹیوں کی طرف سے ٹکٹ صرف ارب پتی تاجروں، سیٹھوں، سرمایہ داروں اور جا گیر داروں کو نہیں ملینگے بلکہ پارٹی کے پڑھے لکھے قابل اور مخلص کار کنوں کو بھی ٹکٹ دینے کی گنجا ئش پیدا ہو جائیگی
کم آمد نی والے اُمیدوار سرما یہ داروں کا مقا بلہ کرنے کے لئے دوسرے سرما یہ داروں کے وسائل استعمال نہیں کرینگے الیکشن مہم میں سرما یہ لگا کرالیکشن کے بعد منا فع کے ساتھ واپس لینے کا رواج ختم ہوجا ئے گا سیا ست بد عنوانی سے پا ک ہو جائیگی دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ جلسوں کی وجہ سے دیہات اور شہروں کا سکون برباد نہیں ہو گا ہر روز امن عامہ کا مسئلہ پیدا نہیں ہو گا جب ذرائع ابلا غ کو استعمال کرنے کی بات آگئی تو سیا ست دانوں کو مل کر تین اہم نکا ت پر اتفا ق کرنا ہوگا پہلا نکتہ یہ ہے کہ انتخا بی مہم میں شخصیات پر بات نہیں ہوگی، پروگرام، ایجنڈا، منشور اور مستقبل کے منصو بوں پر بات ہو گی دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ما ضی کو کرید نے اور گڑھے مردے اکھاڑ نے کا سلسلہ بند ہو گا کسی کی ما ضی پر بات نہیں ہو گی آنے والے الیکشن کا ما ضی سے کوئی تعلق نہیں یہ مستقبل کی طرف پیش رفت ہے تیسرا بڑا نکتہ یہ ہے کہ تصویر وں کو بگاڑ نے اور فو ٹو شا پنگ کے ذریعے یا آڈیو ویڈیو لیکس کے ذریعے کسی کی تو ہین اور تذلیل کرنا ممنوع ہو گا ایک بار اگر پاکستان میں پاک، صاف جمہوری ما حول میں انتخا بات ہوئے تو یہ اچھی مثال قائم ہو گی۔