
اسرائیلی ریاست میں مسیحی برادرری پر حملوں میں اضافہ – ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسرائیلی ریاست میں مسیحی برادرری پر حملوں میں اضافہ
ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)
دی ٹائمزآف اسرائیل اتوار۹جولائی ۲۰۲۳ کی رپورٹ کے مطابق یروشلم میں موجودہ صہیونیت کے بانی “تھیوڈورہرزل(1850-1904)”کی یادمیں ہونے والی ایک سرکاری تقریب کے دوران اسرائیلی صدر نے مسیحیوں پرہونے والے حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔اخباری رپوتاژکے مطابق اسرائیلی صدرنے گزشتہ ہفتے اور گزشتہ مہینے یہودی نوجوانوں کے گروہوں کی طرف سے مسیحیوں کے مقدس مقامات پر عبادت میں مصروف پادریوں اور عام مسیحی لوگوں پر حملوں کو سخت الفاظ میں ردکیاہے اورکہاہے کہ مسیحیوں کی قبروں پر تھوکنااوران کی بے حرمتیاں اوربے ادبیاں کرنے کو کسی صورت برداشت نہیں کیاجاسکتا۔اسرائیلی صدر نے ریاست کے ذمہ اداروں سے کہاکہ ایسی نازیباحرکتوں کو ہرصورت میں روکناہوگاکیونکہ یہ اسرائیلی ریاست کی اقدارکے خلاف ہے۔ایک قدم اورآگے بڑھتے ہوئے انہوں نے کہاکہ وہ خود قانون نافذکرنے والے اداروں کے ذمہ داران کے ساتھ مل کرایسی ناپسندیدہ حرکات کوروکیں گے جو یہودی معاشرے اوریہوسی ریاست کے لیے بدنامی کاباعث بن رہی ہیں۔اسی اخبار کے مطابق اسرائیلی صدر کے اس خطاب کے بعد اسرائیلی وزیرخارجہ “ایلے کوہن”کا اگلے ہفتے ویٹی کن سٹی کادورہ بھی طے کرلیاگیاہے تاہم ابھی پوپ سے ملاقات کاوقت طے نہیں ہوپایا۔
بین الاقوامی خبررساں ادارے این بی سی(NBC)کے مطابق اسرائیلی مسیحیوں نے کہاکہ وہ اوران کے مقدس مقامات یہودی نوجوانوں سے محفوظ نہیں ہیں۔اسرائیلی پادریوں اور اسرائیلی گرجاگھروں کے منتظمین نے کہاکہ کہ یہودی نوجوانوں کے گروہ انہیں تنگ کرتے ہیں اورپریشان کرتے ہیں اوران کی عبادت گاہوں پر حملے کرتے ہیں۔مسیحی بزرگوں نے حکومت اسرائیل پرالزام لگایاکہ حکومتی اداروں نے ان پریشان کن نوجوانوں کے گروہوںکوکھلی چھوٹ دے رکھی ہے اور ان کامواخذہ کرنے والاکوئی نہیں ہے اورباربار شکایات کے باوجود ان کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی عمل میں نہیں لائی جارہی۔”الجزیرہ” کی رپوتاژکے مطابق یروشلم کے قدیمی مسیحی برادری کےعلاقے میں ایک آرمینیائی مسیحی جوکہ ایک شراب خانے کامالک تھااسے رات گئے فون پربتایاگیاکہ تمہاری دکان پریہودی بلوائیوں نے حملہ کردیاہے اور وہ “مسیحیوں کے لیے موت”کے نعرے لگارہے ہیں،یہودی شرپسندنوجوانوں نے یہی کام مسیحی برادری کے رہائشی مکانات کے باہر بھی جاکر کیااوراونچی اونچی آوازوں میں مکینوں کو دھمکیاں دیتے رہے۔ایک اورخبررساں ادارے “دی گارڈین”کے مطابق اسرائیلی رومن کیتھولک چرچ کے لاٹ پادری نے وزیراعظم بن یامین نتن ہاہوکوخبردارکیاہے مسیحیوں کو حضرت یسوع مسیح کی جائے پیدائش میں بھی پریشان کیاجارہاہے جب کہ وہ گزشتہ دوہزارسالوں سے یہاں کے باسی ہیں۔ایک اور خبررساں ادارے ہارٹز” Haaretz“نے اطلاع دی ہے کہ اس سال کے آغاز سے ہی اسرائیلی ریاست میں مسیحیوں کے خلاف حملوں میں غیرمعمولی تیزی آگئی ہے،رپوتاژکے مطابق ان حملوں میں مسیحی افراد،مسیحی مذہبی راہنمااوران کے مراکزعبادت کو نشانہ بنایاجاتاہے اوران پر حملے کرکے اپنی نفرت کااظہارکیاجاتاہے،اس ضمن میں اخباری نمائندے نے اسرائیلی حکومت کے امن و امان کے اداروں کوبھی ہدف تنقیدبنایاہے۔
یہودی انتہاپسندگروہوں کاموقف ہے کہ مسیحی برادری لوگوں کومذہب تبدیل کرنے کی تبلیغ کرتی ہے،نیریہ یہودی گروہ بین المذاہب شادی پربھی اپناایک علیحدہ موقف رکھتے ہیں اورانہیں اس بات پربھی اعتراض ہے کہ اسرائیلی ریاست کی حدودمیں غیریہودی افرادداخل کیوں ہوتے ہیں،یہ ایک یہودی عقیدہ ہے اور صہیونیوں نے اس مقصدکے لیے ایک تنظیم بھی بنارکھی ہے۔اخباری اظلاعات کے مطابق مسیحیوں کے خلاف سرگرم یہ گروہ ہم جنسیت کے لیے بھی مسیحی پادریوں کی مخالفت کوناپسندکرتے ہیں۔بین الاقوامی مسیحی سفار خانہ یروشلم(International Christian Embassy of Jerusalem, )کےنمائندے “ڈیوڈ پارسنز”نے بھی اسرائیلی حکومت اور ان دہشت گردیہودی گروہوں پر شدیدتنقید کی ہے اورکہاکہ یہودیوں کی تاریخ خونریزی سے بھری ہے،اس نے مزیدکہاکہ کم ازکم ہر مسیحی مبلغ کوسمجھ لیناچاہیے کہ اسرائیلی ریاست میں اس کے لیے ہرگزکوئی موافق حالات نہیں ہیں۔اس نمائندے نے مذہب کی تبدیلی والے الزام کی بھی تردیدکی اورکہاکہ مسیحی برادری کی طرف سے اس طرح کی کوئی مہم نہیں چلائی جارہی۔مسیحیوں کی ایک محفل موسیقی جس پر یہودی شرپسندوں کے گرہوں نے یہ کہ کرحملہ کیاتھاکہ یہاں تبدیلی مذہب کاپرچارکیاجارہاہے اس کے بارے میں بین الاقوامی مسیحی سفارتخانے کے نمائندے نے بتایاکہ وہ ایک مسیحی مذہبی موسیقیائی محفل تھی جس میں یہودی علماء و عمائدین کوبطورمہمان بلایاگیاتھا۔مختلف اخبارات نے جنوری ۲۰۲۳ء سے تاحال مسیحیوں پر حملوں کی تاریخ نقل کی ہے اور مختلف واقعات میں تصاویرکے ساتھ ہونے والے نقصانات بھی دکھائےہیں ساتھ ہی ساتھ یہودی انتہاپسندنوجوانوں کے مکروہ عزائم اوراسرائیلی انتظامیہ کی جانبداری کی تفصیل بھی بتائی اور مسیحی متاثرین ،عوام و خواص،کی آراء اوران کی زبانی واقعات کی تفصیلات بھی نقل کی ہیں۔
قرآن مجیدنے یہودیوں اورمسیحیوں کے باہمی اختلافات کو صدیوں پہلے طشت ازبام کردیاتھا،” وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ لَیْسَتِ النَّصٰرٰى عَلٰى شَیْءٍ ۪-وَّ قَالَتِ النَّصٰرٰى لَیْسَتِ الْیَهُوْدُ عَلٰى شَیْءٍۙ-وَّ هُمْ یَتْلُوْنَ الْكِتٰبَؕ-كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِهِمْۚ-فَاللّٰهُ یَحْكُمُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ(سورۃ بقرہ:113) ترجمہ:”اور یہودیوں نے کہا: عیسائی کسی شے پر نہیں اور عیسائیوں نے کہا : یہودی کسی شے پر نہیں حالانکہ یہ کتاب پڑھتے ہیں اسی طرح جاہلوں نے ان (پہلوں )جیسی بات کہی تو اللہ قیامت کے دن ان میں اس بات کا فیصلہ کردے گا جس میں یہ جھگڑ رہے ہیں “۔اسی کے ساتھ ساتھ قرآن مجیدنے مسلمانوں کوایک اورحقیقت سے بھی آگاہ کیاہے کہ ” يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (المائدة: 51)ترجمہ:” اے ایمان والو ! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ، یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک ان ہی میں سے ہے، ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا۔“ قرآن مجیدکی یہ دونوں آیات روزروشن کی مانند آج اپنی حقیقت زمانے سے منوارہی ہیں۔ایک طرف یہودی عوام و نوجوانان ہیں جن کے لیے مسیحیوں کوبرداشت کرنا مشکل ہورہاہے اورانہوں نے ریاست کے اندر نصاری کے خلاف ایک غیراعلانیہ جنگ برپاکررکھی ہے اور جلاأ،گھیراؤ،اٹھاؤ اور دراؤ دھمکاؤ کے منصوبوںپر سختی سے،پابندی سے اورباقائدگی و تسلسل کے ساتھ کاربندہیں،ان کے لیے غیرمذاہب کے لوگ،ان کے بزرگ اورمذہبی راہنما،ان کے مراکزعبادت اور ان کے مقدسات صرف انکی نفرتوں کی مستحق ہیں۔ دوسری طرف یہودی قیادت ہے جن کے دل مسیحیوں کی محبت میں پھٹے جارہے ہیں اوراسرائیلی صدر کومسیحیوں کی پریشانی کھائے جارہی ہے کہ کسی طرح سے انہیں اسرائیلی ریاست میں چین و سکون اوراطمان حاصل ہوجائے اوریہودی معاشرے میں ان کے لیے کوئی نفرین باقی نہ رہے۔اس رویے کے مقابلے میں مسلمانوں کے لیے یہودیوں کارویہ قوم شعیب کے پیمانوں سے تعلق رکھتاہے۔مسیحیوں کی بے چینی نے یہودی قیادت کی نیندیں اڑادی ہیں اورمسلمانوں کی کھوپڑیوں کی کٹتی ہوئی فصل اورکشتوں کے پشتے ان کے لیے باعث اطمان ہے اوروہ اس میں مزیداضافے کے خواہش مندہیں۔اسرائیلی قیادت کے یہ دوہرے معیار اورالگ الگ پیمانے کوئی نئی بات نہیں ہے ،دورسیرۃ النبیﷺ سے ہی یہ ملت اسی رویے کی مالک رہی ہے۔اللہ تعالی نے قوم شعیب کے بارے میں قرآن مجیدنے سورۃ ہودمیں فرمایا کہ “وَلَمَّا جَآءَ أَمۡرُنَا نَجَّيۡنَا شُعَيۡبً۬ا وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَهُ ۥ بِرَحۡمَةٍ۬ مِّنَّا وَأَخَذَتِ ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ ٱلصَّيۡحَةُ فَأَصۡبَحُواْ فِى دِيَـٰرِهِمۡ جَـٰثِمِينَ (٩٤) كَأَن لَّمۡ يَغۡنَوۡاْ فِيہَآۗ أَلَا بُعۡدً۬ا لِّمَدۡيَنَ كَمَا بَعِدَتۡ ثَمُودُ (٩٥)ترجمہ:” آخرکارجب ہمارے فیصلے کاوقت آگیاتوہم نے اپنی رحمت سے حضرت شعیب علیہ السلام اوران کے ساتھی مومنین کو بچالیااورجن لوگوں نے ظلم کیاتھاان کوایک سخت دھماکے نے ایساپکڑاکہ وہ اپنی بستیوں میں بے حس و حرکت پڑے رہ گئے،گویاکہ وہ وہاں کبھی بستے ہی نہ تھے۔سنومدین والے بھی دورپھینک دیے گئے جس طرح ثمود والے پھینک دیے گئے تھے”۔آج بھی قوم شعیب کی حامل اسرائیلی ریاست ملت یہوداسی انجام کاانتظارکرے کہ ماضی قریب میں بھی ہالوکاسٹ کے نام پر کم و بیش ان کایہی انجام ہواتھا اورتاریخ کاپہیہ بہت اپناچکرپوراکرکے وہیں آن رہتاہے۔اللہ تعالی نے چاہا توفلسطینی مسلمان بہت جلدجذبہ جہاد کے باعث اپناکھویاہواوطن حاصل کرلیں گے اور اہل مدین و قوم ثمودکی طرح باسیان ریاست اسرائیل دورپھینک دیے جائیں گے،ان شااللہ تعالی۔
drsajidkhakwani@gmail.com