
جنتی قوم کے جہنمی آقا – پروفیسرعبدالشکورشاہ
جنتی قوم کے جہنمی آقا – پروفیسرعبدالشکورشاہ
پیٹ کی بھوک تو کسی نا کسی طرح مٹ جاتی ہے مگر آنکھوں کی بھوک کبھی ختم نہیں ہوتی۔بھوک کا تعلق صرف کھانے سے نہیں ہے۔اس کی بہت سی اقسام ہیں جیساکہ دولت کی بھوک، اقتدار کی بھوک،شہرت کی بھوک وغیرہ۔غریب کی بھوک روٹی ملنے سے مٹتی جبکہ امیر کی بھوک غریب کی روٹی چھیننے سے کم ہوتی ہے۔مہنگائ کے طوفان نے غریب آدمی کے بدن سے چیتھڑے بھی اتاردیے ہیں اور فاقوں کی وجہ سے پیٹ پر باندھیپتھر تک دیکھ کر دل نہیں بسیجھتا بلکہ حکومت کا بس چلے تو وہ پیٹ پر باندھے پتھر بھی اتار کر لے جائیاور رسی غریب آدمی کے گلے میں ڈال کر پھانسی پر لٹکادے۔اب غریب کو ابدی لباس سفید کپڑا ہی ملے گا وہ بھی مقدر مقدر کی بات ہے۔بس آنکھیں سفید ہونے کی دیر ہے۔غریب کے پاس تن کو ڈھانپنے اور امیر کے پاس من کو صاف کرنے کے لیے کپڑا نہیں۔ غریب آدمی کے ٹیکسوں پر پرآسائش زندگی گزار کر غریب کو ہڈیوں کا ڈھانچہ بنانیوالے صاحب اقتدار اگرضمیر کے آئینے کے سامنے کھڑے ہوں تو اپنا اصل چہرہ دیکھ کر خوف سے بیہوش ہوجائیں۔یہ رب کی کرم نوازی ہے ہمارے اعمال کے مطابق ہماری شکلیں نہیں بگڑتی ورنہ اس سیارے پر گنتی کے چند انسانی شکل کے حامل افراد نظرآتے۔
ڈراونی فلم دیکھنے کے لیے ہم سینما کے بجائے پارلیمنٹ اور قومی و صوبائ اسمبلی تشریف لے جاتے۔ہم فرعون،نمرود، یزید کے مظالم کے قصے سناتے ہیں ہم موجودہ دور میں ان ظالموں کی زندہ مثالیں کیوں نہیں دیکھاتے؟آئیں فرعون،نمرود اور یزید دیکھنے کسی سرکاری دفتر چلیں،کسی ایم ایل اے کے پاس جائیں، آئیں ہم ایوان عدل کا چکرلگالیں، آئیں کسی پولیس سٹیشن چلیں آپ کو ان ظالموں کی زندہ مثالیں نا ملیں مجھے زندہ گاڑھ دینا۔ یزید صرف پانی بند کرنے والے کو نہیں کہا جاتا عوام کے لیے آٹا،چینی،گیس،ادوایات،بجلی،موبائل و انٹرنیٹ سروس وغیرہ بند کرنے والے بھی اسی تعریف کیذمرے میں آتے ہیں۔ جہاں تک مکان کی بات ہے وہ بھی ہم سب کو ملے کا اور بڑے منصفانے طریقے سے دوگز کا گھر چاہے امیر ہے، وزیر ہے یا فقیر ہے سب نے اسی طرف لوٹ کرجانا ہے۔ مگر ہمیں اس بات کی فکر نہیں ہم دنیا سنوارنے کے چکر میں اپنی موت اورآخرت مشکل بناتے جارہے ہیں غریب آدمی اب صرف قبر کی جگہ ملنے کی فکر میں ہے شہروں میں تو قبر میں بھی آرام نہیں کرنے دیتے مردوں کو ایسے نکال باہر کرتے جیسے ہماری اسٹیبلشمنٹ حکومت کو چلتا کرتی اور نیا مردہ دفن کردیتے۔اس سے فرق بھی کیا پڑتا ہے مردے کو مردے سے تبدیل کردیا جائے مردہ قوم کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہونا چاہیے۔
بندہ اور ضمیر جب مردہ ہوجائے جتنی مرضی جگہ تبدیل کرلیں زندہ نہیں ہوتے۔تیسری بنیادی ضرورت ہے روٹی۔روٹی کا لفظ بھی بڑا غور طلب ہے روٹی کے شروع میں رو آتا ہے پھر ٹی لگ کر روٹی بنتی ہے۔روٹی ناصرف آگ پر بنتی ہے بلکہ ملتی بھی انگاروں پر چل کے ہے۔موجودہ حالات میں جسطرح غریب آدمی روٹی کے لیے رو رہا ہے اس کا کرب صرف وہی سمجھ سکتا ہے۔ہم بحرانستان میں رہ رہے ہیں اور حکومت نے عوام کو جنت کے حصول کے لیے باضابطہ مشق کروانے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔اس کی آسان ترین مثال آزاد کشمیر میں آٹے کا بحران ہے۔کم کھانے کے طبعی لحاظ سے بھی بہت فوائد ہیں۔ہمارے پاس نا تو ہسپتال ہیں نا ڈاکٹرز اور ناہی ادوایات ہم کم کھانے کے زریعے صحت مند رہ سکتے ہیں۔عوام حکومت کو برابھلا کہتی اور حکومت عوام کو۔حکومت نے اپنی رٹ قائم کرنیکے لیے آٹے کی فراہمی ہی معطل کررکھی ہے۔کم کھانے کے سیاسی،سماجی،معاشی،اخروی اور قومی فوائد ہیں۔بھوکا روٹی مانگیگا اس کے لیے 2 جمع 2 4 روٹیاں ہوتی ہیں وہ اس سے آگے کی سوچ نہیں سکتا اور ریاست یہی تو چاہتی ہے عوام کو ایک کے بعد دوسرے بحران میں دھکیل دیا جائے اور خود من مانیاں کرے۔سماجی سطح پر بھوکا معاشرے میں دوسروں کے لیے پریشانی پیدا کرتا ہے اور عوام پریشان ہوگی توحکومت خوش رہے گی۔
معاشی سطح پر کم کھانے سے غلے کی بچت ہوگی اور ملکی معیشت مضبوط تصور ہوگی۔اخروی فوائد میں صبروقناعت کے بدلے جنت ملے گی اور قومی فوائد میں یہ قوم بحرانوں کا سامنا کر کے کندن بن جائے گی اور پیٹ پر پتھر باندھ کر ملکی ترقی کے لیے دن رات کام کرے گی۔اللہ وہ وقت نالائے کہ غریب آدمی بھوک سے پیٹ پر باندھے پتھر اٹھا کر صاحب اقتدار کے سر میں مار دے۔آجکل حکومت بھی ایک لطیفہ ہے سب کی حکومت ہے اور کسی کی حکومت نہیں ہے۔وزیراعظم صاحب پورٹ فولیو دینے کا نام نہیں لیتیاور ایم ایل ایز کے پاس عوام کو رام کرنے کا ٹھوس بہانہ ہے۔سب محکمے بییارومددگار ہیں بالخصوص محکمہ خوراک۔نا تو وزیر خوراک ہے اور ناہی سیکریٹری خوراک۔آٹے کا سٹاک کچھ تو محکمہ اپنی خوراک بناچکا اور باقی بچا سٹاک سیکریٹری سے نیچے کا عملہ اپنی خوراک بنارہا ہے۔عوام کے حصے میں روٹی کے پہلے دو حروف “رو” آتے۔آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جبکہ آٹے کی سپلائ دہائیوں پرانے اعدادوشمار اور جغرافیائ حدود کے تعین کے مطابق کی جارہی ہے۔سیاحتی علاقوں میں لاکھوں سیاحوں کی آمد کی وجہ سے کھپت کئ گنا بڑھ چکی ہے مگر محکمہ خوراک سب کچھ اپنی خوراک کے لیے کررہا ہے۔
محکمہ خوراک کا نام تبدیل کرکے محکمہ آٹا خور رکھ دینا چاہیے۔حکومت،اس کے وزیروں اور مشیروں کی سمجھ نہیں آتی ان کی عقل قلیل میں یہ بات کیوں نہیں آتی سیاح صرف تازہ ہوا اور خوبصورت مناظر دیکھنے نہیں آتے وہ پیٹ بھی ساتھ لیکر آتے ہیں جسکی بھوک مٹانے کے لیے آٹا چاہیے۔دورافتادہ علاقوں میں خاندان کافی بڑے ہوتے کم از کم 10 افراد کا کنبہ ہوتا ہے۔اب اگر ایک کنبے کو 20 کلو آٹے کی تھیلی ملے گی وہ تو 2 دن کی خوراک بھی نہیں ہے۔ہمارے دیہاتی علاقوں میں بچے روٹی پاکستان سمجھ کے کھاتے ہیں۔مضافاتی علاقوں میں برگر کھا کر کارٹون دیکھنیوالا کام نہیں ہے وہاں بچے 3 روٹیاں کھا کر (شڑپ کرکے) ایک پہاڑی چڑھتے ہیں تو لکڑ ہضم پتھر ہضم۔موسم گرما میں مضافاتی علاقے کے لوگ بیک/ڈھوک میں چلے جاتے اور میلوں کا سفر طے کرکے آتے، آٹا پھر بھی نہیں ملتا۔ہوٹل،گیسٹ ہاوسسز وغیرہ نے آٹے کی کھپت کو کئ گنا بڑھا دیا ہے مگر ہم پرانے اعدادوشمار کے حساب بھی سپلائ بحال رکھنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔جہاں تک آٹے کی قیمت اور معیار کی بات ہے یہ نوحہ پھر سہی۔حکومت آٹے کے بحران کا نوٹس لے اس سے پہلے کے عوام صاحب اقتدار اور افسران کو آٹے کی جگہ گوندھنے شروع کردے کیونکہ بھوک انسان سے کچھ بھی کرواسکتی ہے۔عوام مہنگائ کے اس دور میں بھوکی رہ کر وزیروں مشیروں اور افسران کی توندیں بڑھا رہی ہے جبکہ ان جدید فرعونوں کو بھوک سے بلکتی عوام کی زرا سی بھی فکر نہیں ہے۔