Chitral Times

Sep 22, 2023

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

داد بیداد ۔ صدقہ، چندہ اور قرض ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on
شیئر کریں:

داد بیداد ۔ صدقہ، چندہ اور قرض ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

آج کل سب سے گرم مو ضو ع یہ ہے کہ قرض لیتے وقت قرض دینے والے کی شرائط کو تسلیم نہ کیا جا ئے شرائط کو تسلیم کرنا قومی غیر ت، حمیت، خود داری اور آزادی کے برعکس کام ہے یہ بیا نیہ ان تمام لو گوں کا ہے جنہوں نے صدقہ، چندہ اور قرض لیتے وقت اپنے محسن کی ہر شرط کو تسلیم کیا ہے یہاں کسی فرد، شخصیت، حکومت یا پارٹی کا نا م لینے کی چنداں ضرورت نہیں سب معلوم ہے اور سب کو معلوم ہے اللہ کے آخری نبی محمد ﷺ کی حدیث شریف کا آسان اور عام فہم ترجمہ ہے کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہا تھ سے بہتر ہے حدیث میں دینے والے ہاتھ کو اوپر کا ہاتھ اور لینے والے ہاتھ کو نیچے کا ہاتھ کہا اور لکھا گیا ہے اس حدیث مبارک کی تشریح میں علمائے سلف نے اسلا م کے معا شی اور معاشرتی نظام کا پورا فلسفہ بیان کیا ہے جس میں سود کی حر مت اور زکوۃ کی فرضیت کے ساتھ ساتھ معا شرتی انصاف، انسا نی مساوات، سما جی برابری اور عدل کے رموز کو کھول کر بیان کیا گیا ہے اسلا م کے عروج کے دور میں اس وجہ سے کوئی زکوۃ لینے والا نہیں ملتا تھا بیت المال سے وظیفہ لینا لو گ اپنی تو ہین سمجھتے تھے

 

بر صغیر پا ک و ہند میں دینی مدارس کا نظام آیا تو مولا نا قاسم نانوتویؒ، مولا نا رشید احمد گنگوہی ؒ، مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ اور مفتی کفایت اللہ ؒ نے چندہ، اعانت اور صدقات، ہدایا قبول کرنے کے لئے کڑی شرائط رکھ دیے پہلا شرط یہ تھا کہ دینے والا راسخ العقیدہ مسلمان ہو دوسری شرط یہ تھی اس کی کما ئی حلا ل ہو تیسری شرط یہ تھی کہ اُس کے ایمان اور اس کی کما ئی پر اس کے شہر، محلے اور قرب و جوار کے لو گوں کی گواہی مو جو د ہو تذکرہ نگا روں نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ مدرسے میں اخرا جا ت کی تنگی کے زما نے میں کوئی انجا ن شخص 1860ء، 1880ء میں 10ہزار روپیہ چندہ دینے کے لئے آجا تا تو اس کو کہا جا تا تھا کہ چندما ہ صبر کرو، اپنا نا م ولدیت، قوم اور شہر، محلہ کا پورہ پتہ لکھوا دو ہمیں جب ضرورت پڑیگی اپنا سفیر آپ کے پا س بھیجینگے اور یہ رقم بذریعہ سفیر آپ سے وصول کرینگے ان حضرت کے تشریف لے جا نے کے بعد سفیر بھیجتے مگر چندہ لا نے کے لئے نہیں،

 

تفتیش اور تحقیق کرنے کے لئے بھیجتے کہ مو صوف کے حا لات اور کوائف کیا ہیں، بعض دفعہ ایسا ہوا کہ مذکورہ پتے پر جا کر معلوم کرنے پر پتہ لگا کہ اس پتے پر اس نا م کا کوئی شخص نہیں رہتا، بہت دفعہ ایسا ہوا کہ پتہ درست ہے اس نا م کا شخص یہاں رہتا ہے لیکن اُس کو آئے ہوئے چند مہینے گذرے ہیں اس کے دین، ایمان اور اس کی کما ئی کے ذرائع کا پتہ نہیں ایسی صورت میں مو صوف کو معذرت کا خط لکھ دیا جا تا کہ اپنا صدقہ کسی اور مصرف میں لگا دو ہمارے مدرسے کو اس سال اس کی ضرورت نہیں ہے بہت دفعہ ایسا ہو تاتھا کہ پتہ بھی درست تھا لو گ اُس شخص کو جانتے تھے متعدد شہا دتیں آئی تھیں کہ یہ شخص مسلمان نہیں ہے اس کے نا م بھی معذرت کا خط بھیجا جا تا تھا

 

بعض جگہوں سے ایسی شہا دتیں آتی تھیں کہ مذکورہ شخص مسلمان ہے مگر سودی کاروبار، رشوت ستانی، چوری، بردہ فروشی اور دیگر نو عیت کے حرام طریقوں سے کما ئی حا صل کرتا ہے، بہت دولت مند ہے بڑی بڑی جا ئدادوں کا ما لک ہے غریبوں کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے مسا جد میں چندہ دیتا ہے جب تفصیلی معلومات آجا تیں تو مدرسے کی طرف سے اس کے نا م بھی معذرت کا خط بھیج دیا جاتا، دیو بند اور مدرسہ امینیہ کے اکا برین کا یہ قول تذکروں میں ملتا ہے کہ اللہ پا ک صرف پا کیزہ مال کو قبول کر تا ہے قرآن وحدیث کی تعلیم پر صرف پا کیزہ مال خرچ ہونا چا ہئیے اس فقہی فتویٰ کے بعد اکابر کہتے تھے کہ صدقہ اور چندہ دینے والا کل مدرسہ کے متو لیوں میں شا مل ہو گا پھر وہ الٹے سیدھے مشورے دیکر ہمیں غلط راستے پر ڈال دے گا کیونکہ چندہ اور اعانت مال ہے اور مال فتنہ ہے اسلا می تاریخ کا یہ سبق انفرادی، اجتما عی اور ریا ستی سطح پر ہمیشہ یا د رکھنے کے قابل ہے اگر ہم اس سبق کو یاد رکھینگے تو اپنی چادر دیکھ کر پاوں پھیلا ئینگے پھر نہ قرض لینے کی ضرورت پڑے گی نہ قرض دینے والے کی شرائط ماننے کی نو بت آئیگی۔


شیئر کریں: