
مسلہ گندم کی سبسڈی ہے یا چترالی خود؟ – تحریر: احتشام الرحمن
مسلہ گندم کی سبسڈی ہے یا چترالی خود؟ – تحریر: احتشام الرحمن
جماعت اسلامی کی طرف سے حالیہ دھرنے اور پی ڈی ایم کی بچگانہ پریس کانفرنس کے بعد کر ایک واقعہ یاد آیا. آج سے کئی سال پہلے جب 2016 میں مالاکنڈ ڈویژن میں ٹیکس لگانے کا فیصلہ ہوا تو پورے مالاکنڈ ڈویژن کے تمام سیاست دانوں نے پارٹی وابستگی سے بالا تر ہو کر اس کے خلاف آواز اٹھائی اور پہیہ جام اور شٹر ڈاون ہڑتال, یہاں تک کہ سول نافرمانی تک کی دھمکی دے دی. اس وقت اگر کسی نے اس پر بات تک نہیں کی تو وہ چترالی سیاست دان تھے. اسے ہماری بدقسمتی کہئے یا اللہ کی طرف سے عذاب, حقیقت یہی ہے کہ یہاں آج تک ایک بھی, سوائے محئی الدین صاحب کے, عوام دوست سیاسی قائد نہیں آیا ہے. شائد لیڈرشپ کی اسی فقدان کی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں ‘چترال ٹاون’ بھی پکی سڑکوں سے محروم ہے اور اپر دیر میں اچھی لیڈر شپ کی وجہ سے ہی آپ کو کسی بھی ‘نالے کے اس پار’ ایک گھر کے لئے بھی آر سی سی پل دکھائی دیتا ہے.
آج سے کئی سال پہلے ایک صاحب نے فلور مل لگانے کی منظوری لے کر اس کے لئے ایک بنک میں اکاونٹ کھولا. جب محئی الدین صاحب کو اس بات کا پتہ چلا تو انہوں نے نہ صرف اس کی مخالفت کی بلکہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ان کو یہاں سے بھگا دیا. ان کا موقف یہ تھا کہ یہ فلور مل مالکان مافیا ہیں اور ان ملز کی وجہ سے چترال کا کوٹہ ختم ہوگا. اس وقت چترالیوں کی اکثریت, بشمول جماعت اسلامی, ان پر چترال دشمن ہونے کا الزام تک لگاتے رہے. چونکہ وہ دور اندیش انسان تھے اس لئے انہوں نے اس وقت اس عوامی مفاد عامہ کی بات کو سمجھا جس کے لئے جماعت اسلامی آج جد و جہد کر رہی ہے. اس وقت محئی الدین صاحب نے جو کچھ کیا تھا وہ بھی قابل تحسین تھا اور آج جو مغفرت شاہ صاحب کر رہے ہیں وہ بھی قابل تعریف ہے. لیکن بد قسمتی سے اس وقت بھی عوامی مسلے کو نظر انداز کر کے مخالفت اور سیاست کی گئی اور ‘الحمد للہ’ آج بھی وہی روش اختیار کیا جا رہا ہے.
پارٹی وابستگی اپنی جگہ, لیکن بحیثیت قومی لیڈر یہ ہر ایک سیاست دان کی اولین ذمہ داری ہونی چاہئے کہ وہ عوام کو پارٹی پر مقدم رکھے. یہ خاصیت محئی الدین صاحب میں اعلی درجے کی حد تک پائی جاتی تھی. لیکن, بدقسمتی سے, پچھلے پانچ سالوں سے ہمارے ایم این اے مولانا چترالی صاحب جذباتی ہو کر, پہلے بغض عمران اور بعد میں بغض پی ڈی ایم میں, عوام اور اپنے علاقے پر پارٹی کی غلط پالیسیوں کو ترجیح دے رہے ہیں جس سے ان کو یا ان کی پارٹی کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوا البتہ علاقے کے لوگ بنیادی ضروریات کو بھی ترس رہے ہیں.
چھوٹا منہ بڑی بات کے مصداق میں چترال کے سیاسی قائدین سے کچھ گزارشات کرنا چاہتا ہوں:
اول یہ کہ ایک دوسرے سے بغض کرنا چھوڑ دیں. عوامی مسلے پر ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور رواداری کا مظاہرہ کریں. عوام کو اپنی گندی سیاست کا شکار نہ بنائیں. عوام کو بھی چاہئے کہ وہ ایسی تحریکوں کا حصہ بنیں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوتا ہے. حالیہ پولو ٹورنامنٹ میں ہزاروں لوگوں کی شرکت جبکہ دھرنے میں گنتی کے چند لوگوں کی موجودگی سے ہماری ترجیحات کا پتہ چلتا ہے کہ ہم کتنے سنجیدہ لوگ ہیں.
دوئم, سیاسی قائدین چترال اور اہل علاقہ کو فوقیت دیں اور حکومت, وزرا اور حکام بالا سے کام نکالیں چاہے آپ حکومت کا حصہ ہوں یا اپوزیشن میں ہوں کیونکہ آپ کی وجہ سے نہ انقلاب آسکتا ہے, نہ جمہوری عمل تیز ہو سکتا ہے اور نہ ہی ‘خلافت’ قائم ہو سکتی ہے. اس لئے اپنی چادر کے حساب سے پاوں پھیلا کر عوام کی خدمت کو اپنا نصب العین بنائیں.
سوئم, موجودہ دھرنا عوامی مسلے کے حل کے لئے دیا گیا ہے. اس میں شرکت ہر ایک شہری اور سیاست دان کی ذمہ داری ہے. لیکن وہاں جماعت اسلامی کے چند لوگ ہی نظر آتے ہیں جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ چترالی سیاست دانوں کا عوامی سے کوئی سروکار ہے ہی نہیں. اگر کوئی چیز مقدم ہے تو وہ ذاتی مفادات یا سوشل میڈیا پر ان کا چرچا.
چہارم, یہ موقع ہے کہ پیپلز پارٹی, مسلم لیگ نون اور جمعیت علماء اسلام کے لوگ بھی اس دھرنے کا حصہ بنیں. ان پارٹیوں کے ضلعی صدور, اعلی عہدیدار, اور خاص کر کے افتخار الدین صاحب, اس کے ذریعے سے لابنگ کریں. شہباز شریف کو یہ سمجھائیں کہ گندم پر سبسڈی نہ دے کر عوام سے ان کو نوالہ چھینا گیا ہے اور وہ احتجاج پر اتر آئے ہیں. بحیثیت عوامی نمائندے ہماری مجبوری کو سمجھیں اور اس مسلے کو فی الفور حل کریں کیونکہ عوام کے بغیر ہماری نہ کوئی حیثیت ہے نہ ہی سیاست میں ہمارا وجود باقی رہے گا. سپاسنامہ کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس دھرنے کی وجہ سے اس کی اہمیت مزید بڑھ جائے گی. اس سلسلے میں ایم این اے اور پی ڈی ایم کو آپس کے اختلافات بھلا کر ایک پیج پر آکر اس مسلے کو حل کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ریسرچ کے مطابق معاشرے میں برائیوں کی کئی وجوہات میں سے بنیادی وجہ بھوک ہی ہے.
آخری بات, گندم پر سبسڈی تو ایک ٹیسٹ کیس ہے. مستقبل میں دوسرے مسائل, جیسے کہ سڑکوں کا مسلہ, پیش آسکتے ہیں. اس لئے پارٹی وابستگی سے بالا تر ہو کر اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ عوامی مسائل کو مقدم رکھیں تا کہ آپ کے جانے کے بعد آپ کے مخالفین بھی آپ کی تعریف کریں کہ ہاں فلاں بندہ عوامی لیڈر تھا, اس نے علاقے کی فلاح کے لئے کئی اچھے کام کیے تھے, وغیرہ وغیرہ.