Chitral Times

Sep 27, 2023

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان – ”پنشن قوم پہ بوجھ ہے“- محمد جاوید حیات

شیئر کریں:

دھڑکنوں کی زبان – ”پنشن قوم پہ بوجھ ہے“- محمد جاوید حیات

 

وزیر خزانہ صاحب نے پرس کانفرنس کرکے فرمایا کہ یہ پنشن قوم پر بوجھ ہے مستقبل میں قوم اس عذاب سے چھٹکارہ نہیں پا سکے گی۔۔یہ کو ئی نئی بات نہیں ہے اس کا احساس سب کو ہے کہ قوم کی دولت فضول میں ضائع ہو رہی ہے۔پنشن کا مطلب ہی یہ ہے کہ کوئی فرد اتنا بوڑھا ہو جائے کہ وہ کام سے جائے اس کے قوی جواب دیں اس کا ہوش ٹھکانے نہ لگے وہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے قابل نہ رہے تب اس کو گھر بیھجدیا جاتا ہے۔پاکستان میں اس بڑھاپے کی حد ساٹھ سال ہے۔ساٹھ سال کے بعد جرنل لڑنے کے قابل نہیں رہے گا جج انصاف نہیں کر سکے گا پولیس آفیسر بس اونگھتا رہے گا۔استاد سب کچھ بھول بال جائے گا اور کلاس روم میں طوطی بن جائے گا انجینئر کو ہوش نہیں رہے گا کہ کسی کاعذ پہ کوئی ڈھنگ کی ڈیزائن بنا سکے۔ڈرائیور گاڑی کی سٹیرنگ نہیں گما سکے گا

 

اس لیے ان کو فارغ کیا جاتا ہے۔جب وہ سروس میں تھے تو انصاف کا تقاضا تھا کہ ان کو معاوضا دیا جاتا تھا ان کو قوم کی خدمت کے لیے سہولیات سے نوازا جاتا تھا۔یہ فلاحی ریاست کی نشانی تھی۔اب شاید ہماری ریاست فلاحی نہیں رہی یا ہم اس قابل نہیں ہیں کہ اپنے باشندوں کی روٹی روزی کا بندوبست نہیں کر سکتے ہیں۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ تضاد ہے ہم پنشن کے نام پہ قوم کی دولت لوٹ رہے ہیں۔ملک کا صدر آئینی سروس مین ہے صدارت کی مدت پوری کردی آگے وہ کس بات کی مراعات لے رہا ہے۔کوئی سینیٹر چند سال سینیٹ میں بیٹھا۔۔۔فارغ ہوا اس کی کارکردگی بھی قوم کو پتا نہیں اس کو مراعات سے کس بنیاد پہ نوازا جائے ایک جج اپنی کرسی پر بیٹھا انصاف کی دھجیاں اڑائی۔۔۔ فارغ ہوا۔۔۔۔جائے اپنے گھر بیٹھے۔۔۔۔اس کو پوری زندگی مراعات سے کیوں نوازا جائے۔۔۔۔کوئی جرنل جس نے قوم کی حفاظت کی اب ان کی جگہ کوئی دوسرا حفاظت کر رہا ہے ان کو کیوں کر نوازا جائے۔اسی طرح یہ کسی چند سکوں کے ملازم تک آتا ہے وہ فوج کا سپاہی ہے ساری سروس محاذ پہ،پیکٹ پہ نیند قربان کرکے بندوق اٹھائے گزارے۔۔۔۔ فارغ ہوا۔۔۔۔

 

کوئی استاد ہے جو چند سکوں کے عوض قوم کے بچوں کی انگلیاں پکڑ پکڑ کر ان کو الف با لکھنا سکھایا۔اس کو گھر بیھجدیا جائے۔وزیر خزانہ صاحب یہ قوم پہ بوجھ لگتا ہے۔کیا قوم کے فاضل وزیر خزانہ کو یہ احساس نہیں ہے کہ فوج کا یہ سپاہی جب ملازمت سے فارغ ہو کر گھر جائے گا تو اس کا کوئی گھر بھی نہ ہوگا۔نہ بنک بیلنس ہوگا۔وہ کمائی سے جا چکا ہوگا دانہ پانی کے لیے کوئی زریعہ نہ ہوگا ریاست اس کو معمولی پنشن جیب خرچ کے طور پر دے رہی ہے وہ بقول وزیر خزانہ قوم پہ بوجھ ہے اگر انصاف کرنا ہماری مجبوری ہے تو سب کا پنشن بند ہونا چاہیے ساری زندگی پنشن مراعات کے نام پہ جو عیاشیاں ہیں ان کو بند ہونا چاہے تب جا کے کسی سپاہی کے چند ہزار روپے،کسی استاد،کسی پولیس مین، کسی چوکیدار کے چند ہزار روپے کی پنشن بند کیے جائیں تاکہ قوم پر بوجھ نہ پڑے۔لیکن ہمارے ہاں اشرافیہ اور آفیسر شاہی کی اپنی دنیا ہے لگتا ہے کہ یہ پاکستان ان کا ہے یہ ریاست ان کی عیاشیوں کے لیے ہے۔یہ کبھی انصاف کے تقاضے نہیں ہو سکتے۔

 

صوبہ خیبر پختونخواہ جس میں ہر قانون ازمائش کے لیے اپنایا جاتا ہے اصلاحات یہاں سے شروع ہوتے ہیں قانون سازی یہاں سے شروع ہوتی ہے اس صوبے میں پنشن اصلاحات کے نام پہ غریب ملازمین کے حقوق پرشپ خون مارنے کاسلسلہ جاری ہے۔پاکستان کے دوسرے صوبوں میں ایس ایس ٹی استاد کا گریڈ 17 ہے مگر یہاں پہ 16 ہے تمام صوبوں میں پنشن پہ جانے والے ملازمین کی ایک سال کی تنخواہ ان کو رننگ پے پہ دی جاتی ہے یہاں پہ پنشن اصلاحات کے نام پہ اس کو انتہائی بنیادی تنخواہ پہ لایا گیا ہے۔دوسرے صوبوں میں کمیوٹیشن کی رقم چالیس فیصد ہے یہاں پہ تیس تک لایا گیا ہے۔دوسرے صوبوں میں رننگ بیسک پنشن پہ ملتی ہے یہاں پر 2017 کی رننگ بیسک پنشن پہ ملتی ہے۔دوسرے صوبوں میں سرکاری سکولوں میں اصلاحات لاکے ان کو مضبوط کیا جا رہا ہے یہاں پہ ان کو نجی سطح پہ دیا جا رہا ہے۔

 

بحیثیت قوم ہم قربانی کے لیے تیار ہیں لیکن یہ دوہرا معیار کس فلاحی ریاست کا معیار ہے؟۔اگر ریاست اشرافیہ کی ہے تو بیشک ہمیں کچلا جائے۔۔اگر حقیقت اور انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو وہ سپاہی وہ پولیس مین وہ استاد وہ راج مزدور قوم کے محسن ہیں جو قوم کے لیے اپنے آرام و سکون اور زندگیاں قربان کر رہے ہیں ریاست ان کی ماں ہے ان کی ان قربانیوں کا صلہ ان کو ملنا چاہیے نہ یہ کہ قوم کے بوجھ کے نام پہ ان کی معمولی پنشن بند کرکے ان کو روٹی روزی سے محروم کیا جائے۔اگر یہ قربانی نہیں ہے تو کوئی جائے اور سیاچین کی ایک پیکٹ پہ گلیشر کے اندر صرف ایک رات گزار کے آئے۔۔۔اور معاوضے کا تقاضا نہ کرے


شیئر کریں: