
پرامن ممالک کی فہرست – محمد شریف شکیب
پرامن ممالک کی فہرست – محمد شریف شکیب
امن و امان اور عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا جائزہ لینے والے بین الاقوامی ادارے انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس نے امن کے لحاظ سے دنیا کے 163ممالک کی سال 2023کی فہرست جاری کردی ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کا نمبر 146اور بھارت کا 126واں ہے۔ فہرست میں پڑوستی ملک افغانستان کومسلسل آٹھویں سال سب سے آخری163ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ گویا پاکستان میں امن و امان کی صورتحال افغانستان سے 17درجے بہتر ہے۔ تاہم روایتی حریف بھارت سے 20درجے پیچھے ہونے کا دکھ بھی ہے۔ فہرست کے مطابق دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی پوزیشن بھی امن عامہ کے حوالے سے کچھ زیادہ پر کشش نہیں ہے۔ امریکہ امن و امان کے لحاظ سے 131، چین 80، بنگلہ دیش88، سعودی عرب 119، سری لنکا107اور متحدہ عرب امارات 75ویں نمبر پر ہے۔ امن و امان کے حوالے سے مثالی اور بہترین ممالک میں آئس لینڈ بدستور پہلے نمبر پرہے۔
ڈنمارک دوسرے، آئرلینڈ تیسرے، نیوزی لینڈ چوتھے، آسٹریا پانچویں، سنگاپور چھٹے، پرتگال ساتویں، سلوانیا آٹھویں، جاپان نویں اور سوئزر لینڈ دسویں نمبر پر ہیں۔براعظموں کے لحاظ سے یورپ سب سے پرامن اور جنوبی ایشیاء کی پوزیشن سب سے خراب ہے۔ آئی ای پی ہرسال مختلف ممالک میں جرائم کی شرح، عوام کو ریاست کی طرف سے ملنے والے تحفظ اور بنیادی انسانی حقوق کی بنیاد پر مختلف ملکوں کی درجہ بندی کرتا ہے۔پاکستان میں جرائم کی شرح میں اضافے کی وجہ مہنگائی اور بے روزگاری کو ٹھہرایاجاتا ہے۔ اگر اس تناظر میں ترقی یافتہ ممالک کو دیکھیں تو امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، دوبئی، شارجہ، سعودی عرب اور دیگر متمول ممالک میں جرائم کی شرح صفر ہونی چاہئے۔ لیکن امریکہ میں بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں سورج غروب ہونے کے بعدجرائم پیشہ گروپوں کا راج ہوتا ہے۔ لوگ گھروں میں دبک جاتے ہیں مارکیٹیں بند اور سڑکیں سنسان ہوجاتی ہیں۔ انسانی معاشرے کے ساتھ جرائم کا ہمیشہ سے تعلق رہا ہے اورابد تک رہے گا۔ تاہم مہذب معاشروں میں جرائم کی شرح کم ہوتی ہے۔
ہمارے ہاں صرف غربت، بے روزگاری اور مہنگائی ہی جرائم کا سبب نہیں ہیں۔صدیوں سے رائج قبائلی روایات، اراضی اور رشتے کے تنازعات بھی قتل، اقدام قتل، اغوا،گینگ ریپ، جنسی زیادتی اور دیگر جرائم کا سبب بنتے ہیں۔دہشت گردی کے خلاف پرائی جنگ میں حصہ دار بننے کی وجہ سے ہمارے ہاں بم دھماکوں، خود کش حملوں، ڈرون سے برسائے جانے والے میزائلوں، ٹارگٹ کلنگ،تاوان کی غرض سے اغوا اور بھتہ خوری کے جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔1979میں افغانستان میں روس کی فوجی مداخلت اور 2001میں نائن الیون کے واقعے کے بعد ہمارے پڑوسی ملک عالمی طاقتوں کے درمیان پنجہ آزمائی کامیدان بنا ہوا ہے افغانستان میں بدامنی کی وجہ سے لاکھوں لوگ نقل مکانی کرکے پاکستان میں پناہ گزین ہوئے اور چالیس سال گذرنے کے باوجود پناہ گزینوں کی اکثریت اپنے وطن واپس نہیں جاسکی۔ان مہاجرین میں بڑی تعداد جرائم پیشہ لوگوں کی بھی تھی جنہوں نے اپنے میزبان ملک کو بھی مشق ستم بنایا۔بقول شاعر کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم تھے، کچھ اپنا مرنے کا شوق بھی تھا۔
ہم نے سوویت فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے دنیا بھر سے امریکی اشیر باد کے ساتھ مجاہدین بھرتی کئے۔ انہیں تربیت دی، اسلحہ فراہم کیا۔ ان بدیسی مجاہدین کواپنے گھروں میں ٹھہرایا۔ اپنی بیٹیوں کے ساتھ ان کی شادیاں کرادیں۔جب سوویت فوج شکست کھانے کے بعد افغانستان سے بے نیل و مرام واپس چلی گئی تو امریکہ نے انہی مجاہدین کو دہشت گرد قرار دیدیا۔انکل سام کے کہنے پر ہم نے بھی ان مجاہدین کو دہشت گرد کہنا شروع کردیا۔ ان لوگوں کو لڑنے کے سوا کوئی کام نہیں آتا تھا۔ جب افغانستان میں لڑنے کو کچھ نہیں رہا تو وہ دہشت گردانہ کاروائیوں کے ذریعے جرائم کی طرف راغب ہوگئے کیونکہ معاشرے میں ان کے لئے قبولیت کے امکانات معدوم ہوچکے تھے۔ اگر پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی، بدامنی اور انتشار پایاجاتا ہے تو اس کے ذمہ دار اس خطے کے لوگ نہیں بلکہ بین الاقوامی طاقتیں ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کو پرامن قوموں کی درجہ بندی کرتے ہوئے جرائم کے اسباب کا بھی کھوج لگانا چاہئے تاکہ کسی قوم کو ناکردہ گناہ کی سزا کے طور پر امن کا دشمن قرار نہ دیا جاسکے۔