Chitral Times

Sep 27, 2023

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

“یونیورسٹی آف چترال میں بھرتیاں”- اجمل الدیں

Posted on
شیئر کریں:

“یونیورسٹی آف چترال میں بھرتیاں”- اجمل الدیں

کچھ سالون سے ملک کے پبلک یونیورسٹیز اور خصوصا خیبر پختونخواہ کے ان اداروں میں مالی بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔ اگر وجوہات کا ذکر کیا جائے تو انکا احاطہ قدرے ممکن نہیں۔ البتہ کچھ بنیادی وجوہات میں حد سے زیادہ بھرتیان، مالی بدانتظامیاں، ایچ-ای-سی کی طرف سے مختص شدہ رقم میں کٹوتی اور اداروں کے اندر فیکلٹی ممبرز اور سپورٹنگ اسٹاف کے ساتھ جائز حقوق پر کیا جانے والا ناروا سلوک جس کی وجہ سے اسٹاف میں ادارے موافق غیر دلچسپی قابل ذکر ہیں۔ کچھ لوگوں کا یہ کہنا بجا ہے کہ تعلیمی ادارے صرف پیسے بٹورتے ہیں تجزیہ و تحقیق اور جدید ایجادات کا کچھ تصور نہیں۔ لیکن یہاں ہمیں اس بات کو بھی سامنے رکھنا ہوگا کہ کیا ہمارے اداروں میں اسٹاف اور طلباء کو وہ ماحول وہ سہولیات وہ حقوق اور وہ مالی معاونت مل رہی ہے کہ نہیں جسے بنیاد بناکر ہم ان سے پروگریس اور مثبت نتائج کا پوچھ سکیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں تو اکثر اسٹاف اپنے اور طلباء اپنے حقوق کیلئے لڑ رہے ہوتے ہیں۔ جب تک ان دو طبقوں کے مسائل حل نہ ہوں ہم کسی بھی مثبت نتائج کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ محدود وسائل میں موجودہ نظام میں بہتری کی گنجائش بہت کم ہے۔ مقصد بیاں یہ کہ تعلیمی اداروں اور یہاں کے اسٹاف و طلباء کو ہر وہ سہولیات دینی پڑے گی جسے پاکر وہ یکجاء اور یکسوئی سے تدریس و تحقیق میں مصروف رہیں اوریگانگت سے ملک و قوم کی خدمت کریں۔ پھر نہ انکی شکایات رہینگی اور نہ ہمیں شکایت کا موقع دینگے۔ یہاں حالت تو یہ ہے کہ اسٹاف کو کنٹریکٹ یا ویزیٹنگ کی بنیاد پر لیا جاتا ہے اور کھال ادھیڑنے کے بعد کچھ تو خود چھوڑ جاتے ہیں اور بہت تھوڑے مستقل بنیادوں پر بھرتے کئے جاتے ہیں وہ بھی قریبا عشرہ گزرنے کے بعد۔ کچھ بدنصیب عشرون بعد بھی ملازمت کی عمر گزرنے کی وجہ سے عدالتوں میں ٹھوکریں کھا کر پھر رہے ہوتے ہیں، تو ایجادات و تحقیقات اور ترقی کیا خاک ہوگی۔

اب آتے ہیں اس اقدام کی طرف جو آجکل یونیورسٹی آف چترال کی طرف سے لیاگیا ہے۔ ایچ-ای۔سی کے تعلیمی اداروں میں ملازمیں کی بھرتیوں کا عمل بہت ہی کٹھن اور زیادہ وقت کا درکار ہونا ہوتا ہے۔ جس میں بنیادی اشتہار اور اسکریننگ سے لیکر سیلییکشن بورڈ کا انعقاد کرانا اور پھر آخر میں تقرری نامہ کے اجراء تک ہر قدم پہ ادارے کے منتظمین اور امیدوار دونوں کو ایک قسم کے بحرانوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان بحرانوں کا وہی لوگ اندازہ لگا سکتے ہیں جن پر سے یہ ہوکر گزرے ہوں۔ ملک اور صوبے کے بڑے بڑے ادارے چترال یونیورسٹی سے زیادہ وسائل ہونے کے باؤجود اس عمل کو بروقت کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ لیکن بہت مختصر عرصے میں جس احسن طریقے سے یہ عمل یونیورسٹی آف چترال میں کیا گیا وہ قابل تحسین ہے اور اسکا سہرا وائیس چانسلر یونیورسٹی آف چترال پروفیسر ڈاکٹر ظاہر شاہ صاحب اور انکی ٹیم کو جاتا ہے۔ کہ جنہوں نے دن رات انتھک محنت کرکے اس پورے عمل کو ممکن بنایا۔ میں اپنی طرف سے اور چترال کے عوام کی طرف سے آپکو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کے ساتھ یہ درخواست کرتا ہوں کہ باقی ماندہ فیکلٹی اور انتظامی عہدوں پر بھی مستقلی بنیاد پر تقرریاں مکمل کر کے، یونیورسٹی میں پہلے سے موجود اسٹاف کے مسائل کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کریں تاکہ ہمارا نوزائدہ ادارہ یکسوئی کے ساتھ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے اور آپکی خدمات کو چترالی عوام سنہرے الفاظ میں یاد رکھے۔

آخرمیں، میں اپنی طرف سے نئے بھرتے ہونے والے پروفیسرز کو دل کی گہرائوں سے مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ آپ اپنی صلاحیتوں کو بروۓکار لاتے ہؤے ادارہ اور اسکے طلباء کی معیار کو درس وتدریس اور تحقیق کے شعبے میں پرواں چڑھانے کی سخت جان کوشش کرینگے۔ ابھی تک اس ادارے میں کچھ ہوا ہے یا نہیں لیکں مستقل بنیادوں پر بھرتیاں اس ادارے کو نیا رخ دینگی اور درس و تحقیق کا سلسلہ اک نئے انداز میں پرواں چڑھے گا۔ “انشاءاللہ”

“نہ ہو نومید، نومیدی زوال علم و عرفاں ہے”
“امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں”
“علامہ اقبال”

اجمل الدیں ایگریکلچر یونیورسٹی پشاور

شیئر کریں: