
27روپے فی مریض کا بجٹ – محمد شریف شکیب
27روپے فی مریض کا بجٹ – محمد شریف شکیب
کہوارمیں ایک مثل مشہور ہے کہ “مہ کیہ ژو نو بونیانہ، مہ تت بی کوری کھولیران”جس کے معنی یہ ہے کہ میرے کھیتوں سےاناج تو بہت ملتا ہے مگر میرے والد سارا اناج بیج کے لئے رکھتے ہیں اس لئے کھانے کو کچھ نہیں بچتا۔ ہمارےسرکاری محکموں کابھی یہی حال ہے۔ ہر سال بجٹ میں اربوں روپے محکمہ تعلیم، صحت، معدنیات، سڑکوں و پلوں کی تعمیر، جنگلات کےفروغ، معدنیات اور سماجی بہبود کےلئے مختص کئے جاتے ہیں مگر عوام تک پہنچتےپہنچتےسارا بجٹ ختم ہوجاتا ہے۔ حالیہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق محکمہ صحت کے لئے جتنا بجٹ مختص کیاجاتا ہے اس کا 93فیصد محکمہ صحت کے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن پر خرچ ہوتا ہے۔ صحت عامہ کے لئے صرف 7فیصد بجٹ بچتا ہے۔ اس میں سے بھی ادویات کی خریداری میں دو فیصد غبن ہوجاتا ہے۔
علاج کے لئے فی مریض صرف 27روپے بچتے ہیں۔جس میں پیناڈول کا ایک پلتہ بھی نہیں آتا۔ہمارے ہاں سسٹم کی ناکامی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ پالیسی سازوں نے چند لوگوں کو نوازنے کے لئے اداروں کے قوانین وضع کئے۔اگر صحت اور تعلیم سمیت مختلف سرکاری محکموں کا بجٹ اگر دس گنا بھی کیا جائے تو عوام کو اس سے فائدہ ملنے کا کوئی امکان نہیں۔ حال ہی میں مجھے ایک این او سی کے لئے محکمہ صحت کے دفاتر جانے کا اتفاق ہوا۔ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفسیر کی طرف سے جو مراسلہ ڈائریکٹوریٹ بھیجاگیا تھا اسے تلاش کرنے میں تین دن لگ گئے۔ اس پر دستخط لینے کے لئے مزید تین دن انتظار کرنا پڑا کیونکہ بڑے افسران روزانہ میٹنگ میں ہوتے تھے۔ وہاں سے لیٹر دستی لےکر ہیلتھ سیکرٹریٹ پہنچے تو بتایا گیا کہ گورنر انسپکشن ٹیم کے دفتر میں واقع محکمہ صحت کے دفتر سےڈائری کروائیں۔
ڈائری کروانے اور مہرلگوانے کےبعد سیکرٹری کے دفتر سے تصدیقی مہر لگوا کر ایس او کےدفتر میں آرڈر جمع کروایا۔ دوہفتوں تک انتظار کیا۔کوئی جواب نہ ملا۔دوبارہ ہیلتھ سیکرٹریٹ جاکر مراسلے کی تلاش شروع کردی۔ کئی گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد مراسلہ ملا۔اسے کسی نے ہاتھ لگانے کی زحمت نہیں کی تھی۔ متعلقہ حکام سے پوچھنےپربتایاگیا کہ اس پر ایس او کے دستخط اور مہر لگوانے کےبعد سپرنٹنڈنٹ، پھر اسسٹنٹ سیکرٹری، پھر اسپیشل سیکرٹری، پھر ایڈیشنل سیکرٹری سے منظور کروانے کے بعد سیکرٹری کی میز پرفائل پہنچائی جاسکتی ہے۔ اس دن سیکرٹری اور اسپشل سیکرٹری کابینہ کےاجلاس میں تھے۔ شام تک انتظار کاکہاگیا۔جب شام ہوگئی تو بتایا گیا کہ متعلقہ سیکرٹری صاحبان کے پی ایز چھٹی کرگئے ہیں اگلے روز ہی این او سی تیار کرکے سیکرٹری صاحب کو پیش کیا جاسکتا ہے۔
ایک ہفتے مسلسل محکمہ صحت کے دفاتر کی یاترا کرنے کےبعد بھی کام نہ ہوسکا۔ اس ساری مہم جوئی کے دوران معلوم ہوا کہ محکمہ صحت کے ڈائریکٹوریٹ اورسیکرٹریٹ کےعلاوہ متعدد محکموں میں الگ سے دفاتر ہیں اور ہر کاغذ ہر دفتر میں ہراہلکار کی میز سےہوکر گذرتا ہے تب ہی کندن بن جاتا ہے۔بیشک کسی بھی محکمے کے کئی شعبے ہوتےہیں بھرتیوں، تبادلوں، تنخواہوں، مراعات، ترقیوں سمیت مختلف کاموں کو الگ الگ شعبوں کے سپرد کیاگیا ہے۔ حالانکہ یہ سارےکام ون ونڈو آپریشن کے تحت بھی ہوسکتےہیں اور اس کے لئے ہزاروں ملازمیں اورسینکڑوں افسران رکھنے کی قطعی ضرورت نہیں۔
صرف سو ڈیڑھ سو افراد پر مشتمل عملہ پورےصوبے کا انتظام بخوبی سنبھال سکتا ہے اور لوگوں کےکام بھی بلاتاخیر نکل سکتے ہیں۔جب سارا بجٹ افسروں اور ملازمین کی تنخواہوں، مراعات، گاڑیوں، ان کےفیول، مرمت، بنگلوں اور نوکرچاکروں پرخرچ ہوں گے تو عوام کے لئے کیاخاک بچے گا۔ اور جب تک یہ نظام تبدیل نہیں ہوتا آئندہ سو سالوں تک عوام کو سرکاری محکموں سے کوئی ریلیف ملنے اور ان کےمسائل حل ہونے کاکوئی امکان دور دور تک بھی نظر نہیں آتا۔