Chitral Times

Dec 8, 2023

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ملک میں کئی ہزار ارب روپے کی ٹیکس چوری ہوتی ہے، صرف دو وزارتوں کا گردشی قرضہ 4000 ارب روپے ہے‘ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف

Posted on
شیئر کریں:

ملک میں کئی ہزار ارب روپے کی ٹیکس چوری ہوتی ہے، صرف دو وزارتوں کا گردشی قرضہ 4000 ارب روپے ہے‘ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف

اسلام آباد(چترال ٹایمز رپورٹ )وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ملک میں کئی ہزار ارب روپے کی ٹیکس چوری ہوتی ہے، صرف دو وزارتوں کا گردشی قرضہ 4000 ارب روپے ہے، اگر ہم مستقل تبدیلی چاہتے ہیں تو نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کرنا ہو گی یا انہیں بند کرنا ہو گا،خلیجی ممالک میں کام کرنے والے پاکستانی تارکین وطن کی مٹی کی محبت سے سرشار ہیں، وہ عمران خان کے کہنے پر ترسیلات زر بھجوانا بند نہیں کریں گے کیونکہ انہوں نے اسی مٹی میں دفن ہونا ہے، جو لوگ باہر بیٹھ کر اپنے ملک کے خلاف سازشیں کرتے ہیں وہ اپنے آباؤ اجداد کی تدفین کے لئے یہاں آتے ہیں اور اس کے بعد جائیدادیں بیچ کر انہی ممالک میں چلے جاتے ہیں جن کی وفاداری کا حلف اٹھایا ہوتا ہے، ریئل اسٹیٹ میں 500 ارب روپے کا ٹیکس چوری ہوتا ہے، 9 مئی کو پاکستان کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا گیا، دفاعی اثاثوں پر حملہ آور پاکستانی نہیں ہو سکتے، اس ملک کو درپیش بیماریوں کا علاج عالمی مالیاتی اداروں یا دوست ممالک کے پاس نہیں بلکہ ہمارے اپنے پاس ہے، عدلیہ ملک کے ساتھ حکم امتناعی کے نام پر جو کر رہی ہے اس کی خود احتسابی کرے۔بدھ کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2023-24 کے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا کہ 75 سال میں بنیادی تبدیلیاں لانے کے لئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے، موجودہ معروضی حالات میں آئندہ وفاقی بجٹ میں عوام کو ہر ممکنہ سہولیات کی فراہمی کی کوشش کی گئی ہے، اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔

 

انہوں نے ناممکن کو ممکن بنانے کی کوشش کی ہے،ہمارے دہائیوں کی معاشی ابتری کا سلسلہ اس مقام تک پہنچ چکا ہے جہاں عام آدمی کا سانس لینا مشکل ہے، ایک ایسا طبقہ ہے جسے ہر ممکنہ وسائل دستیاب ہیں، سود کی ادائیگی ہماری آمدن سے زیادہ ہے، ہمارے مسائل کی دیگر کے ساتھ دو بنیادی وجوہات ہیں جن کو سالوں اور دہائیوں میں حل نہیں کیا گیا، دو اداروں کا قرض ایک ہزار ارب سے زیادہ ہے، 86 ارب روپے صرف اس قرض پر سود ادا کیا جا رہا ہے، خسارے والے ادارے کی جلدی نجکاری ہو بہتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی حالات سے ہر ایک آگاہ ہے، ہزاروں ارب روپے ایسے اداروں پر صرف کیا جا رہا ہے جس کا زندہ رہنا ممکن نہیں یہ ریاست کے خلاف جرم ہے، غربت مکاؤ اداروں نے غربت نہیں مکائی لیکن چیف ایگزیکٹو اور چیف آپریٹنگ افسران 30 سے 35 لاکھ روپے تنخواہ لے رہے ہیں اور انہوں نے حکم امتناعی حاصل کر رکھا ہے، یہاں ایک لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری آمدن کا بڑا ذریعہ ٹیکس محصولات ہیں، حال ہی میں ایک ادارے کی ایک سٹڈی آئی ہے جس نے پاکستان میں ٹیکس چوری کے اعداد و شمار دیئے ہیں، اس کے مطابق صرف ریئل اسٹیٹ میں 500 ارب روپے کا ٹیکس چوری ہوتا ہے، تمباکو کے شعبے میں 240 ارب روپے، آٹو موبائل اور ٹائر 50 ارب روپے، آٹو لبریکینٹ 56 ارب روپے، فارماسوٹیکل 65 ارب روپے، چائے کی درآمد پر 45 ارب روپے کا ٹیکس چوری ہوتا ہے، ریٹیل سیکٹر میں 2880 ارب روپے کی ٹیکس چوری ہے، یارن میں 222 ارب روپے کی ٹیکس چوری ہے، ہزاروں ارب روپے کے محصولات چوری کرنے والے ملک میں ریلیف کا بجٹ کیسے پیش ہو سکتا ہے،

 

وزیر خزانہ نے اس کے باوجود ہمت کی۔انہوں نے کہا کہ ہماری آنے والی نسلوں کو تعلیم دینے والے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے کئی سربراہان کرپشن کر کے اربوں روپے کے مالک بن چکے ہیں جبکہ اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد وہ حکم امتناع پر چل رہے ہیں، تجارتی تنظیموں میں بڑے بڑے سمگلر بیٹھے ہوئے ہیں جنہیں ایک سال کی ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے، عام آدمی معمولی جرم پر گرفتار ہے جبکہ بڑے ڈاکہ ڈالنے والے کھلے عام پھر رہے ہیں، ایسے لوگ شادیوں پر اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں، ایک سال میں ان کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی تاہم ممکن نہیں ہو سکا، ایک مستحکم سیاسی حکومت ہی ان کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ بنیادی تبدیلیوں کے بعد منافع بخش یا سرپلس بجٹ ممکن نہیں، تمام معاشی بیماریوں کا علاج موجود ہے لیکن اس کے لئے عزم کا فقدان ہے، اعلیٰ عدالتوں میں 16 لاکھ روپے تک تنخواہیں ہیں لیکن ادارے زنگ آلود ہو چکے ہیں، قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سے عدلیہ میں دراڑ پڑی، سیاست دانوں پر تنقید ہوتی ہے، ہم کھلے دل سے برداشت کرتے ہیں کیونکہ یہ ہمارا کام ہے لیکن یہ ادارے دو دو تین تین وزرائے اعظم کھا گئے، ایک کو پھانسی چڑھا دیا تاہم اس پر کسی نے معافی نہیں مانگی۔انہوں نے کہا کہ ان تمام بیماریوں کا علاج عالمی مالیاتی اداروں، امداد دینے والے برادر ملکوں کے پاس نہیں بلکہ ہمارے پاس ہے جب تک ہم 30، 40 سال سے نقصان میں چلنے والے اداروں کی نجکاری نہیں کریں گے یا انہیں بند نہیں کریں گے تو اس کے مردہ جسم سے ہڈیاں نوچنے کا سلسلہ جاری رہے گا، یہ لوگ عدالتوں سے حکم امتناعی لے آتے ہیں، بڑے تجارتی مراکز میں بجلی اور ٹیکس چوری کیا جاتا ہے، سٹیل ملز کی نجکاری روکنے کے بعد عدالتی حکم پر اربوں روپے تنخواہ میں دیئے گئے۔

 

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے معاہدے کے بادل منڈلا رہے ہیں، ناقابل تسخیر دفاع کے حامل جوہری ملک کو کوئی بیرونی خطرہ نہیں صرف معاشی حالات خطرہ ہیں، سرحدوں کا دفاع بھرپور انداز میں ہو رہا ہے لیکن معاشی دشمنی میں تمام ادارے شامل ہیں، ہم اس کا الزام لے رہے ہیں کیونکہ سیاستدان کوئی معمولی کام بھی کرے تو اس کے اشتہار لگ جاتے ہیں، بیورو کریسی کو ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی تنخواہ کا 70 فیصد پنشن ملتی ہے، ساتھ ملازمین بھی گھر لے جاتے ہیں، تمام سرکاری مراعات بھی استعمال کرتے ہیں۔لیکن ہم اگر ایم این اے نہیں رہتے تو ہمیں پارلیمنٹ لاجز میں گھسنے نہیں دیا جاتا، پی اے سی اور قائمہ کمیٹیاں ہمارے ہتھیار ہیں، ان کی استعداد کار بڑھا کر پورا فائدہ اٹھا سکتے ہیں، عدلیہ تھوک کے حساب سے حکم امتناعی نہ دے، وہ ملک کے ساتھ جو کر رہی ہے اس پر خود احتسابی کرے۔ انہوں نے کہا کہ 2018 کے انتخابات میں دھاندلی سے اقتدار میں آنے والے شخص کی جانب سے 9 مئی کو کچھ ہزار افراد کے جھتے کے ساتھ ریاست کو یرغمال بنانے کی کوشش کی گئی، اب اس کا الزام دوسروں پر لگا رہا ہے، یہ سب منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا تو کیا اس کی بہنیں، اس کی کابینہ کے وزراء اور اراکین پارلیمان بھی اس منصوبہ بندی میں شامل تھے جو جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاؤس اور میانوالی ایئر بیس پر حملہ آوروں کی قیادت کر رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ ان حملوں میں 3200 شر پسندوں کی شناخت ہو چکی ہے، کیپٹن کرنل شیر خان کی بہادری کی تعریف بھارتی فوجی بھی کرتے ہیں لیکن ان کا مجسمہ بھی توڑ ڈالا، شہدا کی یادگاروں کو مسمار کیا گیا، 9 مئی کو پاکستان کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا گیا، دفاعی اثاثوں پر حملہ کیا گیا، یہ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ قومی اثاثے ہیں، ایسے لوگ پاکستانی نہیں ہو سکتے۔

 

انہوں نے کہا کہ 75 سال میں ہمارا ازلی دشمن بھی یہ کام نہیں کر سکا، ایک لاڈلے نے 9 مئی کو اس قوم کو ڈسا، وہ کہتا ہے کہ میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، کیا اس کو اس ایوان سے مستعفی ہونے اور اپنی دو منتخب حکومتیں ختم کرنے کا مشورہ ہم نے دیا تھا، پھر ان تینوں کی بحالی کے لئے عدالت چلا گیا۔وزیر دفاع نے کہا کہ اس ملک کو خطرہ ہماری نازک معیشت سے ہے، ہمارے پاس وسائل ہیں، ہم اپنے زخموں کا علاج ڈھونڈ سکتے ہیں تاہم اس کے لئے عزم نہیں ہے، اس میں تمام ادارے شامل ہیں، کسی ادارے کی نجکاری کا سوچیں تو ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں کہ نیب اور اینٹی کرپشن بلا لے گی، ہمیں اپنی معیشت اور محصولات کا نظام ٹھیک کرنا ہو گا، بدقسمتی سے ملک سے بڑے شہروں اور بڑی مارکیٹوں میں بجلی چوری ہوتی ہے، اس وقت چار ہزار ارب روپے کا بجلی اور پٹرولیم کے محکموں کا گردشی قرضہ کا ہے، بجلی کے نچلے سلیب کا فائدہ اٹھانے کے لئے ایک ایک گھر میں تین تین میٹر لگے ہوئے ہیں، وسائل پر چند لوگوں کا قبضہ ہے، اتنی تفاوت والا معاشرہ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا، یہ ہمارے لئے بیدار ہونے کا موقع ہے۔انہوں نے کہا کہ تمباکو کی صرف دو بیرونی کمپنیاں 175 ارب روپے ٹیکس دیتی ہیں جبکہ باقی 40 فیصد کمپنیوں کا ٹیکس 100 ارب روپے ہے اور بدقسمتی سے ان میں سے کچھ لوگ ان ایوانوں میں بھی پہنچ چکے ہیں، بڑے بڑے ٹی وی چینلز 190 ملین پاؤنڈ جس کے اکاؤنٹ میں گئے اس کا نام لینے سے کتراتے ہیں۔ وزیر دفاع نے کہا کہ عمران خان کو لیڈر ماننے والے پست ذہنیت کے مالک ہیں جو بیرون ملک میں بیٹھے ترسیلات زر بند کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں، ترسیلات زر کا بڑا حصہ خلیجی ممالک سے آتا ہے، یورپ اور امریکا، کینیڈا میں رہنے والے اپنے آباؤ اجداد کو صرف یہاں دفنانے آتے ہیں اور پھر یہاں سے زمینیں بیچ کر واپس چلے جاتے ہیں،انہوں نے غیر ملکی آقاؤں کی وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے، وہ باہر بیٹھ کر اپنے ملک کے خلاف سازشیں کرتے ہیں، انہیں شرم آنی چاہیے کہ اس ملک نے انہیں عزت دی ہے، خلیجی ممالک میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ کی شدید گرمی میں کام کرنے والوں نے اسی ملک میں واپس آنا ہے، انہیں اس وطن کی مٹی سے محبت ہے، وہ پاکستان ترسیلات زر بھجواتے ہیں، وزیر دفاع نے کہا کہ اگر ہم نے مستقل تبدیلی لانی ہے تو نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کو بند کرنا ہو گا یا ان کی نجکاری کرنا ہو گی، بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف ضرور ملی ہے تاہم یہ کافی نہیں ہے۔

 

صابر شاکر، معید پیرزادہ سمیت 4 افراد کیخلاف بغاوت اور دہشتگردی کا مقدمہ درج

اسلام آباد(سی ایم لنکس)صابر شاکر اور معید پیرزادہ سمیت 4 افراد کے خلاف بغاوت اور دہشت گردی کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔شہری ماجد محمود کی جانب سے اسلام آباد کے تھانہ آبپارہ میں صابر شاکر، معید پیرزادہ سمیت 4 افراد کے خلاف بغاوت اور دہشت گردی کے مقدمے میں 9 مئی کو ویڈیو پیغامات کے ذریعے فوجی تنصیبات پر حملوں کے لیے اکسانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ایف آئی آر میں صابر شاکر اور معید پیرزادہ کے علاوہ محی الدین اور سید اکبر حسین کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔ مقدمے میں شہری کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ 9 مئی کو جارہے تھے کہ میلوڈی میں 15، 20 افراد ملزمان کے ویڈیو پیغامات کے ذریعے لوگوں کو دہشت گردی پر اْکسارہے تھے۔ مظاہرین صابرشاکر، معید پیرزادہ و دیگر سے دہشت گردی پھیلانے کی ہدایات لے رہے تھے۔مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ملزمان عسکری تنصیبات پر حملے کرکے ملک میں دہشت گردی اور انتشار پھیلانا چاہتے تھے۔ ملزمان بیرونی ممالک میں رہ کرملک دشمن ایجنسیوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ ملزمان فوجی جوانوں کے اندر بغاوت اور ان کے حلف سے روگردانی کرانا چاہتے ہیں۔ ملزمان فوج کو کمزور کرکے ملک میں دہشت گردی کوپروان چڑھاناچاہتے ہیں۔

 

نجکاری کمیشن کو ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس کی نجکاری کاعمل رواں سال 30 جون تک مکمل کرنے کی بھی ہدایت

اسلام آباد(چترال ٹایمز رپورٹ )کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے پاکستان ایل این جی لمیٹڈ کو آذربائیجان کی سٹیٹ آئل کمپنی کے ساتھ فریم ورک معاہدے کی اجازت دیدی ہے، ای سی سی نے نجکاری کمیشن کو ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس کی نجکاری کا عمل رواں سال 30جون تک مکمل کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی کااجلاس بدھ کویہاں وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار کی زیرصدارت منعقدہوا۔اجلاس میں وفاقی وزراء سید نوید قمر، خرم دستگیر خان، سید مرتضیٰ محمود، شاہد خاقان عباسی،وزیرمملکت ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا، وزیر مملکت مصدق ملک، معاون خصوصی طارق باجوہ، وفاقی سیکرٹریز اور دیگر سینئر حکام نے شرکت کی۔اجلاس میں وزارت توانائی کی سمری پرپاکستان ایل این جی لمیٹڈ اور آذربائیجان کی سٹیٹ آئل کمپنی کے درمیان معاہدے کے فریم ورک کا جائزہ لیاگیا۔


شیئر کریں: