Chitral Times

Dec 8, 2023

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

داد بیداد ۔ چرواہا جا نتا ہے ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on
شیئر کریں:

داد بیداد ۔ چرواہا جا نتا ہے ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

گرم خبر یہ ہے کہ سڑک بنا نے والے افیسروں نے گلگت چترال روڈ پر شندور کے اندر 120سال پرانی سر کاری سڑک کو چھوڑ کر غلط جگہ پر نئے سرے سے سڑک بنا نے کے لئے دلدلی زمین اور بر فا نی گاوں کا انتخاب کیا ہے جس میں کروڑوں روپے کا معا وضہ دلوا کر بستیوں کو اجا ڑنا اور عبادت خا نوں کو مسمار کرنا چا ہتے ہیں مقا می لو گوں کا کہنا ہے کہ ہمارے اباو اجداد کے زما نے سے لشکروں، سوداگروں اور سیا حوں کا راستہ دائیں طرف سور ج لگنے والے جگے سے گذر تا آیا ہے 120سال پہلے برٹش سرکار نے سڑک بنا ئی تو کار وانوں کے اسی راستے پر اپنی سڑک بنا ئی ٹیلیفون کے کھمبے اسی جگہ نصب کئے کیونکہ یہ محفوظ جگہ تھی لیکن آج نئی سڑک بنا نے والے افیسروں کو یہ بات سمجھ نہیں آئی وہ نقشہ نہیں جا نتے وہ کتاب نہیں پڑھتے وہ رپورٹ نہیں دیکھتے وہ صرف ایک بات جا نتے ہیں کہ ایک ہزار روپے کی جگہ 10کروڑ روپے خر چ ہونے چا ہئیں تا کہ گلشن کا کاروبار چلے سڑک بنا نے والے افیسروں کے سامنے عقل، منطق، فلسفہ ریا ضیات اور سو دو زیان کی کوئی بات قابل قبول نہیں

 

ان افیسروں کی وجہ سے سالانہ کئی پل ٹوٹتے ہیں کئی سڑکیں بر باد ہو تی ہیں کئی عما رتیں ملبے کا ڈھیر بن جا تی ہیں لیکن یہ افیسر کسی نقصان کو نہیں ما نتے سرکار کے نقصان میں ان کا فائدہ ہے بدامنی اور انتشار سے ان کو روزی روٹی ملتی ہے مولانا اسعد محمود اور وزیر اعظم شہباز شریف کو علم نہیں کہ ان کے ما تحت افیسر سڑک کی تعمیر کے نا م پر کیا کیا گل کھلا تے ہیں؟ یہ 2001بات ہے جب ہمارے گروپ نے کوئیٹہ کا دورہ کیا اور 1886میں بنے ہوئے ریلوے ٹریک کو اپنی آنکھوں سے دیکھا برٹش حکومت کے افیسروں نے 1878میں ریلوے ٹریک پر کا م شروع کیا تھا چار سا لوں تک ان کے سارے نقشے نا کا م ہو تے رہے چٹا نوں کو چیر نا اور پہا ڑوں پر اونچے پلوں کی مدد سے ریل کی پٹڑی بچھا نا ممکن ہو تا ہوا دکھا ئی نہیں دیا اس اثنا ء میں بکریاں چرا نے والے خا نہ بدوش چرواہوں کو انہوں نے آتے جا تے دیکھا تو انگریزوں نے ان چرواہوں کو بلا کر ان سے معلومات حا صل کرنے کا فیصلہ کیا چنا نچہ چرواہوں کو بلا یا گیا اور ان کے سامنے ریل کی پٹڑی کا منصو بہ رکھا گیا

 

چرواہوں نے کہا ان صحراوں اور پہا ڑوں میں کئی پگڈنڈیاں ہیں جو مہینے کا سفر دو دنوں میں طے کر نے کے لئے استعمال ہو تی ہیں انگریزوں نے کہا ہمیں پگڈنڈیاں دکھا ؤ چرواہوں نے کئی دن لگا کر ساری پگڈنڈیاں ان کو دکھا ئیں انگریزوں نے پو چھا اگر تم سے کہا جا ئے کہ ان پگڈنڈیوں سے ہزار گز لمبے ریل کی لو ہے کی پٹڑی پر چلا کر دکھاؤ تو تم کیا کرو گے؟ چرواہوں نے کہا ہم خر گوش اور چو ہے کی مدد سے پٹڑی بچھا ئینگے انگریزوں نے پو چھا وہ کیسے؟ چرواہوں نے کہا جہا ں بلندی پر چڑھنا ہو وہاں خر گوش کی طرح اچھلنے کے لئے پل بنائینگے جہاں بلندی پر چڑھنا ممکن نہ ہو وہاں چو ہے کی طرح چٹا ن کو کا ٹ کر سرنگ بنائینگے

 

یوں انہی پگڈنڈیوں سے ریل کی پٹڑی گذرے گی انگریزوں نے ایک چرواہے کو کنسلٹنٹ رکھ لیا اور چار سالوں میں ریل کی پٹڑی ہر نا ئی سے ہوتی ہوئی افغا ن سرحد تک پہنچ گئی آج بھی وہی پٹڑی مو جو د ہے اور ٹھیک ٹھا ک کام دیتی ہے یہ مقا می دانش اور مقا می علم کا کمال ہے جسے یورپ اور امریکہ سے چین، جا پا ن یا کوریا تک سب نے تسلیم کیا ہے پا کستان میں سڑک بنا نے والا محکمہ مقا می لو گوں سے دشمن والا سلو ک کر تا ہے ان کی بستیوں کو خوا ہ مخواہ اجا ڑتا ہے عبا دت خا نوں کو کسی ضرورت کے بغیر مسمار کرتا ہے ایک ہزار روپے کی جگہ دو کروڑ روپے لگا کر غلط سڑک بنوا تا ہے اور مقا می آبا دی کو آپس میں لڑا تا ہے شندور کی مو جو دہ سڑک اس جہا لت، کر پشن اور عوام دشمنی کی ایک مثال ہے اگر مو لانا اسعد محمود نے اس نا روا ظلم کا نوٹس نہیں لیا تو متا ثر ہونے والے لوگ عدالت سے رجوع کرینگے فوجی حکام اور سول انتظا میہ سے مداخلت کی اپیل کرینگے۔


شیئر کریں: