Chitral Times

Dec 8, 2023

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ڈاکٹر عافیہ ہم شرمندہ ہیں۔! – تحریر: شہزاد احمد

Posted on
شیئر کریں:

ڈاکٹر عافیہ ہم شرمندہ ہیں۔! – تحریر: شہزاد احمد

وہ خطرے کو بھانپ چکی تھی، وہ اپنے تینوں بچوں کو محفوظ مقام پر پہنچانا چاہتی تھی، وہ کراچی کی رہائشی تھی، برے وقت میں اس نے راولپنڈی پہنچنا تھا، امریکی شک کی بنیاد پر اس کی تلاش میں تھے، امریکیوں کو شک تھا کہ 2002 میں میری لینڈ امریکا میں جو ڈاک ڈبہ کرائے پر لیا گیا وہ ڈبہ القاعدہ کے لئے لیا گیا اور ڈبہ لینے والی خاتون پاکستان سے آئی تھیں، بدقسمت ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی نوکری کی تلاش میں امریکا گئیں تھیں، سو FBI نے ان پر ہی الزام دھر دیا، ہونا یہ چاہئیے تھا کہ اگر ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے کوئی جرم کیا تھا تو امریکا اس جرم کے ثبوت پاکستان کو دیتا اور پاکستان اپنے قانون کے مطابق ڈاکٹر عافیہ کو سزا دیتا، لیکن معاملہ الٹ ہوا، امریکا نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر الزام دھرا اور مشرف نے ڈاکٹر عافیہ کی تلاش شروع کر دی، ڈاکٹر عافیہ پاکستان کی شہری تھی، وہ پاکستان کی بیٹی تھی، امریکا سمیت ہر ایک سے اس کی حفاظت کرنا ریاست کی ذمہ داری تھی، لیکن بدقسمتی ملاحظہ فرمائیں جنہوں نے حفاظت کرنی تھی وہی وحشی درندوں کی طرح امریکا کے ساتھ مل کر ڈاکٹر عافیہ کی تلاش میں لگ گئے،

 

30 سالہ خوبصورت اور خوب سیرت قوم کی بیٹی و بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنے بچوں کو لے کر گھر سے نکلی، اسے محسوس ہوا کہ میرا پیچھا ہورہا ہے، اس نے بہت دیر مزاحمت کی، بہت بچنے کی کوشش کی لیکن وہ مظلوم اور کمزور قوم کی بیٹی قوم کے رکھوالوں کے ہاتھ میں آ گئی،اُس وقت کے حکمرانوں نے ڈالروں کے عوض قوم کی بیٹی کو امریکہ کے ہاتھ بیچ دیا، گرفتاری کے وقت ڈاکٹر عافیہ کی گود میں 5 ماہ کا ایک بیٹا تھا جبکہ ساتھ سفر کرنے والے ایک بیٹے کی عمر 7 سال اور بیٹی کی عمر 5 سال تھی، یہ تینوں خوفزدہ بچے ماں سے لپٹ رہے تھے لیکن ماں نہ خود کو بچا پائی اور نہ بچوں کو، عالم الغیب کوئی نہیں، ملکی میڈیا نے اس خبر کو نشر نہیں کیا اس لئے قوم بے خبر تھی، چند ماہ بعد تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے حامد میر کے پروگرام میں انکشاف کیا کہ پاکستان سے ایک لڑکی کو اغواء کر کے امریکا کو بیچا گیا ہے جب بات بڑھی تو ایک اسٹوری گھڑی گئی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی افغانستان میں جہاد پر گئی تھیں، وہاں اس نے امریکی فوج پر اسلحہ تانا، اسی جرم میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری ظاہر کی گئی، اسی جرم میں ہماری اس مظلوم بہن کو 86 سال قید کی سزا سنائی گئی،

 

امریکی دنیا بھر کو انسانی حقوق کے درس دیتے ہیں، لیکن مظلوم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے تمام انسانی حقوق غصب کر لئے گئے، جج نے مکالمہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے کہا تھا کہ آپ کو سزائے موت بھی ہوسکتی ہے، اس پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے کہا تھا کہ میں تو اس دن مر گئی تھی جس دن پہلی بار میرے کپڑے اتار کر تلاشی لی گئی تھی، واقعی ڈاکٹر عافیہ صدیقی آج کے دور کی مظلوم خاتون ہے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے اظہار یکجہتی کے لئے کئی لوگوں نے اپنی بیٹیوں کا نام عافیہ رکھا تھا، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی سزا کے خلاف احتجاجی ریلی بھی کی اور احتجاجی مظاہرے بھی کئے، لیکن افسوس ہو رہا ہے پاکستان میں اس مظلوم بہن کے نام پر بھی سیاست ہو رہی ہے،

 

الیکشن کا وقت قریب آرہا ہے تو انتخابی نعرے کے طور پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے نام کو استعمال کیا جارہا ہے، خان صاحب نے بھی یہی کیا تھا بطور اپوزیشن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نام استعمال کرتے رہے، قوم کے جذبات ابھارتے رہے، لیکن وزیراعظم بننے کے بعد کبھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نام نہیں لیا، یاد رکھیں دنیا مکافات عمل ہے اور اچھی گزرے یا بری گزرے اس زندگی نے گزر ہی جانا ہے، ایک دن روز محشر ہوگا، اگر ہر بات پر ذاتی مفاد کے لئے سیاست کرتے رہے تو کیا منہ دکھائیں گے اس لئے خدا کا واسطہ ہے کہیں بریک لگائیں، ذاتی خول سے باہر نکلیں، ناک سے نیچے دیکھنا سیکھیں،

 

قسمت کی ستم ظریفی اس وقت کے حکمران مشرف فوت ہوگئے، امریکا افغانستان سے نکل گیا، افغانستان میں طالبان کی حکومت آ گئی، لیکن ہماری مظلوم بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی مشکلات جوں کی توں ہیں، اسلامی ملک ہونے کے ناطے سعودیہ ترکی، ملائشیا اور افغانستان سب اس مظلوم بہن کی رہائی کے لئے کوشش کریں، حکومت پاکستان بھی سفارت کاری کے زریعے دنیا کو متوجہ کرے، جس ماجد خان کے لئے سفری دستاویز آسان کرنے کا ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر الزام ہے وہ ماجد خان بھی گوانتاناموبے جیل سے رہا ہو چکے ہیں، ساری مشکلات صرف اس بہن کے لئے کیوں ہیں، کہیں امریکا ہماری غیرت کو للکار تو نہیں رہا، اگر ایسا ہے تو امریکا کو مایوسی ہوگی، ہم فی الوقت غیرت کھانے کے موڈ میں نہیں ہیں، کیونکہ فی الحال ہم مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں، دشمن سے لڑنے کا فی الحال ہم مسلمانوں کے پاس وقت نہیں ہے، ع

 

لماء کرام سے سنا کہ انسان میں محبت اور نفرت دونوں فطری تقاضے ہیں، جو غیروں سے نفرت نہیں کرتا وہ اپنوں سے نفرت کرتا ہے، اپنوں سے الجھتا ہے، جو اپنوں سے پیار نہیں کرتا، وہ غیروں پر سب کچھ لٹاتا ہے، اس لئے محبت بھی کریں اور نفرت بھی، محبت اچھائی سے ہو اور نفرت برائی سے ہو، لیکن فی الحال بحثیت قوم ہماری ترتیب الٹی چل رہی ہے ، فی الحال ہم برائی کے قریب اور اچھائی سے دور ہیں، جب تک ہماری یہ ترتیب درست نہیں ہو جاتی تب تک ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہم آپ کے لئے کچھ نہیں کر سکتے، جب تک ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ پیاری بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہم شرمندہ ہیں، شرمندہ ہیں، شرمندہ ہیں۔


شیئر کریں: