Chitral Times

Dec 8, 2023

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

امیر جماعت کا صائب مشورہ – محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

امیر جماعت کا صائب مشورہ – محمد شریف شکیب

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے تجویز پیش کی ہے کہ ماضی میں جن لوگوں نے عوام کے نام پر آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرضے لے کر خود کھائے ہیں سود سمیت وہ قرضہ خود ادا کریں۔عوام کو ان قرضوں سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ٹیکسوں کی صورت میں غریبوں کا خون نچوڑ کر قرضے چکا نے کا کوئی جواز نہیں۔ہر حکومت نے عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے جھولیاں پھیلاکر بھاری شرح سود پر قرضے لئے اور پھر ان قرضوں کی اقساط واپس کرنے کے لئے بھی مزید قرضے لئے گئے۔ آخر وہ رقم خرچ کہاں ہوئی۔ پاکستان معاشی طور پر آگے بڑھنے کے بجائے مسلسل پیچھے جارہا ہے۔ مغرب والے چاند اور مریخ پربستیاں بسانے کے منصوبے بنارہے ہیں ہمارے ہاں 80فیصد آبادی کو آج بھی پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ ملک کے وسائل پر دو فیصد اشرافیہ قابض ہے۔امیرجماعت اسلامی کا یہ کہنا بے جا نہیں کہ قوم کے نام پرلی گئی رقم کا حساب مانگنا عوام کا حق ہے۔

 

ہمیں سوچنا ہوگا کہ 1960کے عشرے میں ہم جنوبی کوریا،چین اور دوسرے ملکوں کو مالی امداد دیا کرتے تھے۔ گذشتہ چالیس سالوں میں ہماری حالت غیر ہوگئی۔ہم دینے والوں کی صف سے نکل کر لینے والوں کی قطار میں کھڑے ہوگئے۔جب کشکول لے کر دربدر پھیرنے لگے تو ہماری قومی غیرت بھی سو گئی۔وزیراعظم شہباز شریف نے ٹھیک کہا تھا کہ بھیک مانگنے والوں کی کوئی مرضی نہیں ہوتی۔بھکاری اسی کی مرضی پرچلتے ہیں جوان کے کشکول میں چند ڈالر ڈالتے ہیں۔عام فہم بات ہے کہ آپ منت سماجت کرکے کسی سے قرضہ لیں گے تو قرضہ دینے والے کے سامنے اپنی شرائط نہیں رکھ سکتے بلکہ قرضہ دینے والا اس کی واپسی کے لئے شرائط رکھنے کا استحقاق رکھتا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ چھ ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام میں سے ایک ارب ڈالر کی وصولی کے لئے گذشتہ ڈیڑھ سالوں سے مذاکرات ہورہے ہیں ہربار عالمی ادارے کی طرف سے نئی شرائط پیش کی جاتی ہیں۔

 

بات سمجھ میں آنے والی ہے۔ قرضہ دینے والا کبھی نہیں چاہئے گا کہ اس کا قرض دار دیوالیہ ہوجائے اور قرض کی رقم واپس ملنے کے امکانات معدوم ہوجائیں۔قرضہ لینا کوئی معیوب بات نہیں۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی،جاپان، روس اور دیگر ترقی یافتہ ممالک بھی مالیاتی اداروں سے قرضے لیتے ہیں ان قرضوں کو قومی تعمیر کے منصوبوں پرخرچ کرتے ہیں۔دنیا بھر میں بینکوں اور مالیاتی اداروں کا پورا نظام قرضوں پرچلتا ہے۔لیکن بدقسمتی سے ہماری حکومتوں نے جو قرضے لئے۔وہ کسی قومی تعمیر کے منصوبے پرخرچ نہیں ہوئے۔عوام کی حالت بدلنے اور انہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے نام پرلئے گئے قرضے حکمرانوں اور اعلی افسروں کے بینک اکاونٹس میں منتقل ہوگئے۔انہوں نے اسی رقم سے بیرون ملک جائیدادیں اورآف شور کمپنیاں بنائیں اپنے بچوں اور رشتہ داروں کو نوازتے رہے۔ اور قرضوں کی ادائیگی کے لئے عوام پرٹیکسوں کا بوجھ لادتے رہے۔

 

 

آج پاکستان کا ہر شہری پینے کے پانی، آٹے، گھی، چائے، چاول،دالوں،سبزی، پھلوں، دودھ، دہی، کپڑوں، جوتوں،پالش، ٹوتھ پیسٹ، برش، موبائل فون،بجلی،گیس سمیت ضرورت کی ہرچیز پر ٹیکس دیتا ہے۔بجلی کا صرف شدہ یونٹ اگر 150ہے تو اس کی قیمت دو ہزار دو سو پچاس روپے بنتی ہے۔ جنرل سیلز ٹیکس، محصول، نیلم جہلم سرچارج، ٹی وی فیس، اضافی سرچارج اور ایف ای ٹی ملاکر آٹھ نو ہزار کا بل بھیجا جاتا ہے۔ کچھ ٹیکسز وفاقی حکومت کے فنڈ میں جمع ہوتے ہیں اور باقی رقم بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے عملے کی عیاشیوں پر لٹائی جاتی ہے۔ اگر بیرونی قرضوں کو صنعت، زراعت، آبی ذخائر، معدنیات اور سیاحت کی ترقی پر خرچ کیا جاتا تو آج پاکستان تمام قرضے سود سمیت واپس کرچکا ہوتا اور قرضہ دینے والا ملک بن جاتا۔ ہم اپنی صنعتی، توانائی اور زرعی پیداوار میں خود کفیل ہوتے۔قوم کی ترقی کے لئے سوچنے اور وژن رکھنے والی قیادت کے فقدان نے پاکستان کوآج اس مقام پرپہنچایا ہے۔آج ہمارے دشمن پاکستان کے دیوالیہ ہونے اور ٹوٹنے کی تاریخیں دینے کی جرات کررہے ہیں۔اور ہمارے لیڈروں نے قوم کو زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں میں مصروف رکھا ہوا ہے۔یہ قوم بڑی خود دار اور غیرت مند قوم ہے اقوام عالم میں مزید اپنی سبکی اور توہین برداشت نہیں کرے گی۔ اب اس بیکار اور فرسودہ نظام کو بدلنے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔


شیئر کریں: