Chitral Times

Dec 3, 2023

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دوائے دل – ہمیں ”دریافت“ کرنے سے ہمیں ”تسخیر“ کرنے تک!- (مولانا محمد شفیع چترالی)

Posted on
شیئر کریں:

دوائے دل – ہمیں ”دریافت“ کرنے سے ہمیں ”تسخیر“ کرنے تک!- (مولانا محمد شفیع چترالی)

آج کل جہاں بھی جانا ہوتا ہے، دوست احباب کی جانب سے پوچھا جاتا ہے کہ ملکی سیاست میں اچھی خاصی گرما گرمی چل رہی ہے اور تمہارا قلم خاموش ہے، وجہ کیا ہے؟
شاعرشیرین مقال افتخار عارفؔ کو بھی شاید ایسی ہی کیفیت کا سامنا تھا جب انہوں نے کہا تھا ؎
خلق ہم سے کہتی ہے
سارا ماجرا لکھیں
کس نے کس طرح پایا
اپنا خوں بہا لکھیں
ہم قلم سے شرمندہ
چشم نم سے شرمندہ
سوچتے ہیں کیا لکھیں

حقیقت یہ ہے کہ اب لکھنے کو کچھ رہا نہیں ہے۔ ویسے تو ہماری پوری پچھتر سالہ سیاسی تاریخ ہی ناگفتنی کا باب اور ہماری مقتدرہ کے شوقِ بت گری و بت شکنی کی فسوں کاری کی داستان ہے تاہم وطن عزیز کے ساتھ جس طرح کا کھلواڑ گزشتہ چھ سات سالوں کے دوران ہوا ہے، وہ پاکستان کے پچیس کروڑ عوام کے لیے اب سنجیدہ مضمرات کا حامل ثابت ہورہا ہے۔

اگر ہم 2016ء میں جائیں تو ملک میں میاں نواز شریف کی حکومت تھی۔ اس حکومت کی کار کردگی بھی بہت زیادہ مثالی نہیں تھی، کئی اہم مسائل ایسے تھے جن کے حل میں حکومت کامیاب نہیں ہوپارہی تھی لیکن مجموعی طور پر ملک کی سمت ترقی کی جانب تھی، مہنگائی بہت حد تک کنٹرول میں تھی، آٹے اور چینی کی قیمت دوتین سال تک نہیں بڑھی تھی، معیشت میں اتنی جان تھی کہ اسحق ڈار ڈالر کو 115سے واپس 100سے نیچے لاکر شیخ رشید سے شرط جیت سکتا تھا، معیشت کی شرح نمو پانچ فی صد سے اوپر چل رہی تھی، آئی ایم ایف کے شکنجے سے نجات مل چکی تھی، سی پیک پر کام کی رفتار تیز تھی اور ہرروز کسی نئے میگا منصوبے کے افتتاح کی خبرچل رہی ہوتی تھی، کراچی میں امن آگیا تھا اور فاٹا میں درون حملے رک گئے تھے۔ امید کی ایک کرن روشن تھی کہ ملک اب تیزی سے ترقی کرے گا۔

مگر پھر جانے کیا ہوا کہ کچھ لوگوں کو”تبدیلی“ کی سوجھی اور پھر پاناما لیکس کے بعد احتساب کے غلغلے، سیاسی ہنگامہ خیزی، برق رفتار عدالتی فیصلوں کا ایک طلسماتی چکر شروع ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے معیشت سمیت ہر چیز کا گراف نیچے جانے لگا۔ 2017ء میں میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے سے لے کر 2018ء میں عمران خان کو مسند اقتدار میں بٹھانے تک کے عرصے میں جو سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی کی کیفیت رہی، اس نے ملکی معیشت کو وہ جھٹکے دیے کہ اس کی بنیادیں ہی ہل کر رہ گئیں۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ جب ملک میں سیاسی بے یقینی ہوتی ہے تو سب سے پہلے حصص بازاروں میں مندی آجاتی ہے، پھر ملک کی کرنسی گراوٹ کا شکار ہوجاتی ہے، بیرونی سرمایہ کاری رک جاتی ہے، اس کے نتیجے میں مہنگائی خود بخود بڑھ جاتی ہے، معیشت کی ترقی کا پہیہ رک جاتا ہے، تجارتی خسارہ بڑھ جاتا ہے اور ملک اقتصادی بحران کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہی کچھ یہاں ہوا۔ 2017ء میں عدالت کے ہتھوڑے کے ذریعے نواز شریف کی حکومت گرانے کی کوششوں کے دوران پاکستان کی کرنسی گرنے لگی جس سے ملک پر قرضوں کا حجم روزانہ کی بنیاد پر بڑھتا چلا گیا۔ مہنگائی کا گراف بھی بڑھتا ہی گیا۔ اگست2018 ء میں جب عمران خان نے بائیس سالہ جدوجہد اور ڈیڑھ دو سالہ ”بندوبست“ کے بعد ملک کا اقتدار سنبھالا تو ان پر انکشاف ہوا کہ ملک کا خزانہ تو خالی ہے، ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے بھی پیسے پورے نہیں ہیں۔ عمران خان نے اپنے وعدے کے مطابق خودکشی کرنے کی بجائے کچھ پس و پیش کے بعد آئی ایم ایف کے در پر جبیں سائی کی اور سود خوروں کی عالمی انجمن نے پاکستان کی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر اس پر وہ شرائط عاید کردیں جن کے بوجھ تلے پاکستان کی کمر دبتی چلی گئی۔

عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد ایک چیز اچھی ہوگئی تھی کہ ادارے ”ایک پیج پر“ تھے اور توقع ظاہر کی جارہی تھی کہ اس سے ملک میں سیاسی استحکام آئے گا جس سے معیشت بھی مستحکم ہوگی۔ مگر پھر جانے کس کی نظر لگ گئی کہ وہ ایک پیچ بھی نامعلوم وجوہ کی بنا پر پھٹ گیا اور اس کے بعد زبردست اینٹی کلائمکس کا آغاز ہوگیا جو آخری اطلاعات تک جاری ہے۔ ایک شاعرہ کا شعر مشہور ہے کہ ؎

ہمیں دریافت کرنے سے ہمیں تسخیر کرنے تک
بہت ہیں مرحلے باقی ہمیں زنجیر کرنے تک

دیکھیے خان صاحب کو ”دریافت“ کرنے سے لے کر ”زنجیر“ کرنے تک اور کتنے مرحلے آتے ہیں اور قوم کو اس کی مزید کیا قیمت بھگتنا پڑتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بت گری اور بت شکنی کا یہ کھیل کچھ لوگ شوق یا عادت کے ہاتھوں مجبور ہوکر کھیلتے ہوں مگر انہیں سوچنا چاہیے کہ ملک کے غریب عوام ان کے اس شوق کے ہاتھوں زندہ درگور ہوچکے ہیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ؎
کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری

قرآن کریم نے ایک تمثیل بیان کی ہے کہ ایک عورت سارا دن سوت کاتا کرتی تھی اور ایک گولا سا بنا دیتی تھی اور شام کو وہ گولا توڑ کر پھینک دیتی اور اگلی صبح نیا گولا بنانا شروع کردیتی اور شام کو پھر اسے بھی ادھیڑ دیا کرتی تھی۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کا حال بھی اس عورت سے مختلف نہیں ہے۔ جبکہ قرآن کریم نے ہمیں اس عورت کی طرح نہ ہونے کا حکم دیا ہے۔ سو ہے کوئی جو نصیحت پکڑے اور آیندہ کے لیے بت تراشنے اور توڑنے کے کھیل سے توبہ کرلے؟
shafichitrali@yahoo.com

 


شیئر کریں: