Chitral Times

Dec 8, 2023

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان – استاد کے شب و روز – محمد جاوید حیات

شیئر کریں:

دھڑکنوں کی زبان – استاد کے شب و روز – محمد جاوید حیات

استاد بننا بڑے دل گردے کا کام ہے اس کا تعلق انسانوں سے ہوتا ہے ایسی مخلوق جو عقل والی ہے فہم و ادراک والی ہے اگروہ اپنا فہم و ادراک تخریب کے لیے استعمال کرے تو دنیا میں فساد اسی کے ہاتھوں پھیلتا ہے اگر وہ اس کو تعمیر پہ لگا دے تو دنیا جنت بن جاتی ہے ۔استاد ان نو نہالوں کی تعلیم و تربیت کے مہا کام پہ معمور ہے اس کا کام سب سے مشکل ہے استاد کا شاگرد اس کی زندگی ہوتا ہے اگراستاد اسی داٸرے میں رہے تو استاد ہے ورنہ راج مزدور بھی بن جاتا ہے ۔ایک استاد اپنی سروس کے کئی سال لوٸر چترال ڈسٹرکٹ میں گزارنے کے بعد اپر چترال آتا ہے ایڈشنل سیکریٹری عبد الاکرام صاحب اور ڈسٹرکٹ ایجوکشن آفیسر محمود غزنوی صاحب اس کا تبادلہ ایک ہاٸرسکینڈری سکول میں کرتے ہیں استاد پہلے دن اپنے نئے ادارے کی طرف روانہ دوان ہے خواب دیکھتا ہے کہ اس کے دو چار ہم جماعت ادھر استاد ہیں گیٹ پہ نمودار ہوتے ہی وہ دوڑے آٸیں گے اس کو گلے لگاٸیں گے ۔دوسرے اساتذہ سے ان کا تعارف ہوگا کلاس فورس آ آ کے ملیں گے پرنسپل صاحب کے دفتر میں داخل ہوگا

 

پرنسپل حال احوال پوچھے گا پھر کلاس روم ہونگے بچے ہونگے پڑھاٸی ہوگی محنت کرے گا ۔اتنے میں سکول کا بڑا گیٹ آتا ہے استاداندر داخل ہوتا ہے کوٸی گلے لگانے نہیں آتا ۔کسی سے تعارف کرایا نہیں جاتا ۔اتنا کہ فکیلٹی میں ایک استاد کا اضافہ ہوا ہے۔ پرنسپل سے ملنے ان کے دفتر میں داخل ہوتا ہے پرنسپل 40 ،45 سال کا نو جوان اٹھارہ گریٹ کا افیسر یے لمبوترا قد ، چھریرا بدن، ہنستامسکراتا چہرہ، شرین دہن ۔۔۔خوش آمدید کہتا ہے حاضری کی رجسٹر لاکے استاد کے سامنے رکھ دی جاتی ہے استاد ادارے میں اپنی پہلی حاضری لگاتا ہے ۔۔استاذ نے اپنی گزری سروس میں کئی بار پہلی حاضری لگاٸی ہے کئی بار آخری حاضری لگاٸی ہے ۔اس کی زندگی میں کئی چہرے شاگردوں کی روپ میں آۓ کئی اساتذہ کی روپ میں آۓ ۔کھبی کلاس روم، کبھی کھیل کا میدان، کبھی صبح کی اسمبلی ، کبھی ماٸک پکڑ کے کسی فنگنشن میں ، کبھی سٹیچ پر ، کبھی کسی کلاس میں واٸٹ بورڈ کے سامنے ،کبھی خوش کبھی خورسند ۔۔۔غصہ، دلسوزی ، نیک تمناٸیں، دعاٸیں ، کسی کی کامیابی کی خبر سنی چمک اٹھا کسی سے ملا ۔ حال احوال سنا کامیابی کا بتاۓ تو فخر محسوس کرے یہ استادکےشب وروز ہیں ۔لیکن باہر پتھر کے معاشرے میں استاد ایک عام فرد ہے ۔

 

شاید اس کو ٹیکسی کی فرنٹ سیٹ بھی نہ ملے ۔شاید اس کو کسی اجتماع میں بیھٹنے کی جگہ نہ ملے ۔۔ شاید کہیں اس کی بات نہ سنی جاۓ ۔شاید اس کے پاس سواری کے لیے کچھ نہ ہو ۔۔۔شاید اس کا ڈھنگ کا کوٸی گھر نہ ہو ۔۔لیکن استادکو ان کی کبھی پرواہ نہیں ہوتی اگر ہوجاۓ تووہ استاد کے اس داٸرے سے نکل کر غباروں میں اڑے چرخ پہ جھولے ۔جاٸیدادیں بناۓ مصنوعی چکا چوند میں کہیں کھو جاۓ ۔اس بڑے ادارے جس کا نام گورنمنٹ ہاٸر سکینڈری سکول شاگرام تھا میں یہ استاذ استاد ہی رہا ۔بساط بھر سرگرمیاں تھیں مقدور بھرکوششیں تھیں ۔کبھی کلاس روم کبھی کھیل کا میدان کبھی صبح کی اسمبلی ، کبھی ماٸیک ، کبھی فنگشن ۔۔کبھی تقریر کبھی نغمہ پڑھواٶ ۔۔پرنسپل نے کبھی کسی عرض پہ No نہیں کہا حوصلہ افزاٸی میں کوتاٸی نہیں کی ۔یہ بے چین سا استاد کبھی دوڑ کے بشیر تک پہنچتے کبھی آصف کو پکارتے کبھی اشرف صاحب سے کھیلوں کے لیے ٹیپس لیتے کبھی جب بھی ضروت ہوتی مولا نا اسداس کے ساتھ ماٸیک سنبھالتا ۔دوڑ کےغنی کے پاس پہنچتے ۔۔

 

کچھ خواب ادھورے کچھ خواب پورا کرنے کی جدوجہد میں استاد کے شب و روز گزرتے رہے ۔ہاٸر سکینڈری سکول بڑا تاریخی سکول تھا اس کو بے مثال ادارہ ہونا تھا اس کے سٹاف کی محنت انتھک ہونی تھی اس کے پرنسپل کی ایک الگ پہنچان ہونی تھی ۔اس کی عمارت اپنی مثالی خوبصورتی میں مقام رکھنا تھا ۔اس کے طلبا سب سے آگے ہونے تھے یہاں پہ پڑھنا ہر طالب علم کا خواب ہوتا ۔یہاں پڑھانا ہر استاد کا سپنا ہوتا ۔بس اس ناچیز استاد کی جد و جہد اس کے لیے تھی ۔وہ اپنے خوابوں کی تعبیر چاہتے تھے ۔اس بے مثال ادارے میں اس استادنے 14 مہینے گزارے ۔اسی تک ودو میں گزارے ۔پرنسپل کا خلوص اس کے لیے مہمیز تھی نوجوان مہذب سٹاف اس کا احترام کرتے۔غنی استاد اس کے ہاں میں ہاں ملاتے ۔لیکن صد خیف اس ناچیز استاد کی تک و دو اونٹ کے منہ میں زیرا تھا ۔یہ ادارہ اور صلاحیتوں کا تقاضا کر رہا تھا ۔آج استاد کے لیے الوداعی تقریب سجی تھی ۔اس کو ہار پہنایا گیا تھا اس کو سٹیچ پہ بیھٹایا گیا تھا ۔اس کی تعریفیں بھی ہو رہی تھیں لیکن ماضی کی سکرین میں اس کے شکستہ خواب تیر رہے تھے

 

اس نے ادارے کے لیے کچھ نہیں کیا تھا ۔اس کے ساتھی نے اس کی آمد پہ اس کا استقبال نہ کرکے اچھا کیا تھا ان کو پتہ تھا کہ اس کے قوی مضمخل ہیں ۔یہ ڈھیر ہوجاۓ گا ۔۔لازم ہے ایسے اداروں میں نمایان کام ہونا چاہیۓ مسلسل جد وجہد ہونی چاہیۓ انقلابی قدم اٹھانا چاہیۓ ۔اونچی اڑان رکھنی چاہیۓ تب جا کے کہیں انقلاب آ سکتا ہے پرنسپل نے کہا کہ استاد کی کمی محسوس کی جاۓ گی ۔عبد الغنی نے کاغذی پھولوں کا پتلا سا ہار استاد کو پہناکے سرگوشی کی ” سدھارو تیری بے فیض کی کرنیں ہمارے کس کام کی ۔بڑے متحرک ہوکے آۓ آج جمود کا سر بلند ہے ہاں تمہارے لیے مولانا اسد ، تاج ، اشرف ، بشیر اور آصف کے آنسو یہی کافی ہیں “ پرنسپل صاحب اور نور الہادی کے الفاظ مبالغے ہیں کہیں بہک نہ جاٶ کہ تو واقع میں اچھا ہے ۔جب تصویریں بناٸی جا رہی تھیں تو میں مٹی کا ایک شکستہ بت تھا جو متحرک شخصیات کے درمیان استادا تھا ۔شکر ہے ادارے کے ایک کونے کھدرے سےمٹی کا ایک ٹیلہ ہٹا دیا گیا ۔۔اللہ اس ادارےکےپرنسپل ، اساتذہ اور کلاس فورس بھاٸیوں کو عزت افزاٸی کا بدلہ عطا فرماۓ ۔۔۔۔۔۔۔درمحفل خود راہ مدہ ہمچومنے را۔۔۔۔افسردہ دل افسردہ کند انجمنے را


شیئر کریں: