Chitral Times

Dec 3, 2023

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ضرب الامثال اور ہمارے دانشور – محمد شریف شکیب

شیئر کریں:

ضرب الامثال اور ہمارے دانشور – محمد شریف شکیب

حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں سات ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں۔پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد 77بتائی جاتی ہے جن میں سے بیس زبانیں خیبر پختونخوا میں بولی جاتی ہیں ان بیس زبانوں میں پشتو، ہندکو اور گوجری کے علاوہ بارہ زبانوں کا تعلق چترال سے ہے جن میں کہوار،دمیلی، کلاشہ، وخی، یدغہ، پلولہ، توروالی، گاوری، دری ، منجانی اور گوارباٹی شامل ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ ہر زبان کے اپنے ضرب الامثال ہیں جو صدیوں سے مستعمل ہیں۔یہ ضرب الامثال اس زمانے کے بزرگوں کے کہے ہوئے الفاظ ہیں۔جنہیں ہردور میں استعمال کیاگیا۔اور ہردور کے حالات کے سانچے میں وہ الفاظ فٹ بیٹھتے رہے۔ اردو زبان اگرچہ ہماری قومی زبان ہے لیکن ہمارے ہاں ہر قومی چیز کے ساتھ جو سلوک ہوتا رہا ہے۔وہی اردو کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ مگر اردو کے ضرب الامثال آج بھی زبان زدعام اور مقبول ہیں جن میں آستین کا سانپ ہر اس انسان پر صادق آتا ہے جس نے اپنے محسنوں کے ساتھ دھوکہ کیا۔بھینس کے آگے بین بجانا، چور کی داڑھی میں تنکا، گھر کا بھیدی لنکا ڈالے،سرمنڈواتے ہی اولے پڑنا،سانپ بھی مرے، لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، جیسا کروگے ویسا بھروگے، چراغ تلے اندھیرا اور لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے جیسے عالمگیر صداقت کے حامل ضرب الامثال شامل ہیں۔

 

پاکستان میں بولی جانے والی مقامی زبانوں پشتو، ہندکو،پنجابی، سرائیکی، بلوچی، سندھی، شینا، بروشسکی اور گوجری میں بھی اس سے ملتے جلتے سینکڑوں ہزاروں ضرب الامثال موجود ہیں جو نہ صرف موقع محل کے مطابق بولی جاتی ہیں بلکہ شعراء نے بھی ان سے بھر پور فیض حاصل کیا ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ صدیوں پہلے جن لوگوں نے ہردور میں سچ ثابت ہونے والے جو الفاظ کہے تھے۔وہ پڑھے لکھے بھی نہیں تھے۔پھر انہیں اتنی پتے کی باتیں کیسے سوجھیں۔موجودہ دور میں عصری تعلیم کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہونے کےباوجود کسی بھی قومی، بین الاقوامی اور مقامی زبان میں کوئی ضرب المثل قائم کرنا ہمارے علم میں نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ہماری کم عملی ہو۔تاہم یہ بات طے ہے کہ عقل کا تعلق تعلیم سے نہیں ہے یہ اللہ تعالی کی ودیعت ہے۔اقوام عالم کا قیامت تک کے لئے ایک جامع ضابطہ حیات دینے والی ہستی بھی کسی سکول اورمدرسے میں نہیں پڑھا تھا۔ہمارے ایک ترقی پسند دوست کادعوی ہے کہ جس زمانے میں ضرب الامثال بنائے گئے وہ لوگ فارع تھے، کوئی کام دھندہ نہیں تھا۔ بیٹھ کر کہانیاں اور ضرب الامثال گڑھتے رہتےتھے۔آج کےدور میں ہر انسان نان نفقہ کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے،سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی، دفتر میں مغز ماری کے بعد گھر آتے ہیں تو بیگم اور بچوں کی فرمائشیں شروع ہوتی ہیں۔کسی پل چین سے بیٹھنے کی فرصت نہیں ملتی، آج کے مصروف انساں کے بارے میں شاعر نے کہا تھا” فکر معاش ،عشق بتاں، یاد رفتگاں۔۔۔دو دن کی زندگی میں بھلا کیا کرے کوئی”.لے دے کر اہل قلم پر نظریں ٹک جاتی ہیں کہ وہ دور جدید کے حوالے سے ضرب الامثال وضع کریں تاکہ آنے والی نسل یہ نہ کہے کہ ہمارے آباواجداد نکمے تھے پڑھے لکھے ہونے کے باوجود دوچار ضرب الامثال بھی نہیں بنا سکے۔


شیئر کریں: