Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

جمہوریت کا مندر- محمد شریف شکیب

شیئر کریں:

جمہوریت کا مندر- محمد شریف شکیب

بھارت میں ایک انوکھا واقعہ ہوا ہے۔ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی افتتاحی تقریب میں قرآن پاک کی تلاوت کی گئی تقریب کے مہمان خصوصی بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیراعظم نریندر مودی تھی جس نے نہایت ادب سے سورہ رحمن کی تلاوت سنی، ان کےساتھ کابینہ کے ارکان اور ہندو سادھوں کا پورا لشکر موجود تھا۔ قواعد کے مطابق پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح بھارتی صدر نے کرنا تھا مگر وزیراعظم نے انہیں نظر انداز کردیا جس کی وجہ سے کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمنٹ کی افتتاحی تقریب کا بائیکاٹ کیا۔وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کی نئی عمارت کو جمہوریت کا مندر قرار دیدیا۔سوشل میڈیا پر اس واقعے پر تبصروں کا ایک سیلاب آیا ہے ایک صارف کا کہنا ہے کہ نریندر مودی نےقرآن کی تلاوت تو سن لی اب تومذہب کی بنیاد پر نفرت پھیلانا بند کریں اور ہندوستان میں موجود تمام مذاہب کا احترام کریں۔حزب اختلاف کے رہنما راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اس عمارت کے افتتاح کو اپنی تاجپوشی سمجھ رہے ہیں۔

 

ٹوئٹر پربہرام قاضی نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’مودی کو قرآن کی تلاوت سنتے دیکھ کر اچھا لگا۔امید ہے کہ مودی حکومت اپنے اس انداز کو پسماندہ لوگوں کے حقوق اور ان کی آزادی کے تحفظ میں بھی برقرار رکھے گی۔صحافی پونم جوشی نے اسے’منافقت‘ قراردیا۔ انھوں نے لکھا کہ ’انڈیا کےصدر کو تقریب سے باہر رکھنا اور مظاہرین کے مطالبات کو نظر انداز کرنا، مسلمانوں کو آئے دن شیطان کے طور پر پیش کرنا اور ان کو برا بھلا کہنا اور پھر سورہ الرحمٰن سننا جامعیت نہیں، منافقت ہے۔ یہ شرمناک اور سراسر ذلت آمیز ہے۔واثق جمال نامی صارف نے لکھا کہ ’قطر میں فیفا ورلڈ کپ کی تقریب میں سورۃ رحمن کی تلاوت ہوئی اور دلی میں پارلیمنٹ کے اندر سورۃ رحمن کی تلاوت ہوئی۔مودی کی شکل میں دیسی ہٹلر نے یہ یقینی بنایا کہ پارلیمنٹ محفوظ رہے۔ایک مسلمان طالبعلم روشن عباس نے اسے انڈیا کے کثیر تہذیبی ماضی پر ہندوتوا کی جیت کا مظہر قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ اپنی کوششوں میں مودی اور بی جے پی نہ صرف اپنی ہندو نواز حکومت کے لیے قانونی حیثیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ وہ اپنے اس جھوٹے مفروضے کو تقویت دے رہے ہیں کہ ہندوستان کی مسلم سلطنتیں مذہبی طور پر متعصب تھیں اور آج جتنے مسلمان اس ملک میں رہ رہے ہیں وہ بھی ویسے ہی ہیں۔

 

وہ ہندوستانی تاریخ میں اسلامی شراکت کو چھپانے اور جدید دور کے مسلمانوں کو پسماندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔بھارتی پارلیمنٹ کی افتتاحی تقریب میں قرآن پاک کی تلاوت کے علاوہ درجنوں مذاہب کے رہنماوں سے بھی دعائیں کرائی گئیں۔جس کا مقصد دنیا کو یہ دکھانا تھا کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے جہاں تمام مذاہب کے لوگوں کو نہ صرف آزادی حاصل ہے بلکہ ان کی مذہبی رسومات کا احترام کیا جاتا ہے۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں مسلمان اکثریت کو اقلیت ثابت کرنے کے لئے مودی سرکار نے اس کی آئینی حیثیت تبدیل کردی۔ سکھوں اور تاملوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اسے بھی دنیا دیکھ رہی ہے۔ بابری مسجد کو رام مندر میں تبدیل کرنےکا واقعہ بھی مودی اور ان کی جماعت کےماتھے پر کالک کاٹیکہ ہے۔

 

بھارتی حکومت کی منافقانہ پالیسیوں سےامریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی سمیت جمہوریت کے سارے نام نہاد علم بردار واقف ہیں مگر اپنے تجارتی اور معاشی مفادات کی وجہ سے وہ بھارت کی مذمت نہ کرنے اور حقائق سے آنکھیں چرانے پر مجبور ہیں۔مودی اور ان کی جماعت بی جےپی بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے مشن پر کاربند ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ہندوستان صرف ہندووں کا ملک ہے مسلمان، عیسائی،بدھ مت کے ماننے والے، سکھ اور دیگر مذاہب کے لوگ باہر سےآئے ہیں۔انہیں ہندو بن کر رہنا ہوگا یا پھر جہاں سے آئے تھے وہیں واپس جانا ہوگا۔ یہ بات صرف مودی نہیں کہہ رہے۔ موہن داس کرم چند جسے گاندھی جی کے نام سےجانا اور پہچانا جاتا ہے وہ بھی اسی فلسفے کے پیروکار تھے۔ اس لئےوہاں بسنے والے مسلمانوں، سکھوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اجتماعی دعائیہ تقریب کے ڈھکوسلے پر کسی فریب میں نہیں آنا چاہئے۔


شیئر کریں: