Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دی پاکستان وے کی حکمت عملی – محمدشریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

دی پاکستان وے کی حکمت عملی – محمدشریف شکیب

بالاخر قومی ٹیم کے منیجر ریحان الحق کو اس حقیقت کااحساس ہوگیاکہ کھیل میں دفاعی پوزیشن اختیارکرنےوالی ٹیم کبھی نہیں جیت سکتی۔پاکستان نے آنے والے ایشیاء کپ اور ورلڈکپ کےلئے جارحانہ حکمت عملی اختیار کرنے کی ٹھان لی ہے اس نئی حکمت عملی کو “دی پاکستان وے” کانام دیاگیاہے۔کرکٹ کی دنیا میں پاکستان کو ناقابل یقین ٹیم کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ کرکٹ میں پاکستان کا وہی مقام ہے جو فٹ بال میں ریال میڈرڈ کا ہے۔ریال میڈرڈ اور مانچسٹر سٹی کے درمیان میچ آخری مراحل میں تھی چیمپئنز لیگ میں بہترین کارکردگی دکھانے والی ریال میڈرڈ کے مداحوں کو 2022 میں فائنل تک رسائی ناممکن دکھائی دے رہی تھی۔اس وقت تقریباً نوے منٹ کا کھیل ہو چکا تھا اور مانچسٹر سٹی کو میڈرڈ پر اس میچ میں پانچ تین سے برتری حاصل تھی۔ریال میڈرڈ کی ٹیم کو ’ٹیم آف ڈریمز‘ اور ’معجزے کرنے والی ٹیم‘ کہا جاتا ہے۔

 

ان کے کوچ اینکلوٹی اپنی ٹیم کو سات مرتبہ خسارے میں جانے کے باوجود کم بیک کر کے جیتنے کی ویڈیوز دکھا چکے تھے شاید یہی وجہ تھی کہ اب بھی ٹیم میں یقین موجود تھا۔اگلے 88 سیکنڈز میں جو ہوا، اس نے فٹبال کی دنیا کو چکرا کر رکھ دیا۔ ریال میڈرڈ کی جانب سے اتنے کم وقت میں لگاتار تین گول کیے گئے اور یوں یہ ٹیم ایک اور چیمپیئنز لیگ فائنل میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئی اور بعد میں اس میں 14ویں دفعہ چیمپیئن بننے کا اعزاز بھی حاصل کر لیا۔کرکٹ کی دنیا میں ایسی ہی ناقابلِ یقین پوزیشنز سے کم بیک کرنے والی ٹیم پاکستان کی ہے جس کی تاریخ ایسے کئی واقعات سے بھری پڑی ہے۔گذشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ایک موقع پر پاکستان کے سیمی فائنل تک رسائی کے امکانات صرف چار فیصد تھےتاہم پھر پاکستان نے کم بیک کرتے ہوئے ورلڈ کپ کا فائنل بھی کھیلا۔

 

اس کی سب سے مقبول مثال 1992 کے ورلڈ کپ کی دی جاتی ہے جب پاکستان نے ایک ناقابلِ یقین صورتحال سے کم بیک کرتے ہوئے ورلڈ کپ جیتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ٹیم مینجمینٹ نے ’دی پاکستان وے‘ کے نام سے ایک جارحانہ حکمت عملی اور کلچر میں تبدیلی متعارف کروائی ہے جو پاکستانی ٹیم اب سے اپنائے گی اور اس کے تحت ہی ورلڈ کپ 2023 میں کھیلے گی۔ پاکستانی ٹیم کی یہ خاصیت ہے کہ انھیں جب بھی کارنر کیا جاتا ہے تو وہ بار بار اس میں سے نکل کر فتح حاصل کرتے ہیں یہی چیز کھلاڑیوں کو باور کروانے کے لیے نئی حکمتِ عملی متعارف کروائی گئی ہے۔ٹیم کے کوچ ،کپتان اور ٹیم منیجر اس بات پر متفق ہیں کہ قومی ٹیم کی ایک ایسی شناخت بنائی جائے جس سے ٹیم کو طویل مدتی فائدہ ہو “دی پاکستان وے “کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ پاکستانی قوم مشکل وقت کے باوجود ابھر کر سامنے آنے والی قوم ہے اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم سب میں مشکل وقت میں کم بیک کرنے کی صلاحیت پہلے سے موجود ہے۔اس حکمتِ عملی کے تحت ہم چاہتے ہیں کہ ہم کارنر ہونے سے پہلے ہی جارحانہ انداز اپنائیں تاکہ ہم بڑے ٹورنامنٹس میں کامیابی حاصل کر سکیں۔ یعنی جو جارحانہ انداز اور صلاحیت ہم کارنر ہونے کے بعد دکھاتے ہیں وہ ہم شروع سے ہی کیوں نہیں دکھا سکتے؟

 

کارنرڈ ٹائیگرز کی اصطلاح پاکستانی کرکٹ میں 1992 کے ورلڈ کپ میں سامنے آئی تھی جو پاکستان کے اس وقت کے کپتان عمران خان نے متعارف کی تھی۔ وہ ٹاس کے موقع پر ایک سفید شرٹ پہنتے تھے جس پر ٹائیگر بنا ہوا تھا۔جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تھا تو انھوں نے بتایا تھا کہ ٹائیگر کو جب کارنر کیا جاتا ہے تو وہ مزید خطرناک ہو جاتا ہے۔ ہماری ٹیم کی مثال بھی ایک کارنرڈ ٹائیگر جیسی ہے کیونکہ ہمارے پاس اس وقت ہارنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ٹیم منیجرکاکہنا ہےکہ کپتان بابر اعظم جانتے ہیں کہ ٹیم سے کہاں اور کس موقع پر غلطیاں ہوئیں اور ان سب کو اس بات کا بھی علم ہے کہ یہ ٹیم پاکستان کی وائٹ بال کی سب سے عظیم ٹیم کے طور پر جانی جا سکتی ہے۔یہ حکمتِ عملی دراصل اس کارنرڈ ٹائیگرز والی شناخت میں ارتقاء کا عمل ہے۔

 

’ہمیں معلوم ہے کہ ہم کارنر ہونے کے بعد اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں کیوں نہ ہم شروع سے ہی کارنر ہونے سے صاف انکار کردیں اور جارحانہ انداز میں مخالف ٹیم پر شروع سے ہی وار کردیں تاکہ کسی کوہمیں کارنر کرنے کاموقع ہی نہ ملے۔ہمارے پاس چیمپیئن پلیئرز موجود ہیں،نئی حکمت عملی کا مقصد انھیں ایک چیمپیئن ٹیم بنانا ہے۔کرکٹ میں جارحانہ انداز اپنانے کی روایت سری لنکاکی ٹیم نے ڈالی ہے ان کے مایہ ناز بلے باز جے سوریا جب میدان میں آتے تھے تو مخالف ٹیم کےبالرز کی ٹانگیں کانپنے لگتی تھیں۔ اسی جارحانہ انداز اور جے سوریاکی طوفانی بلےبازی کی بدولت سری لنکا ورلڈ کپ کا تاج اپنے سرپر سجانے میں کامیاب ہواتھا۔ہمارے پاس آج پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کے سب سے بہترین بلےباز موجود ہیں جن کی صلاحیتوں کی انٹرنیشنل کرکٹ کونسل بھی معترف ہے۔

 

انٹرنیشنل رینکنگ میں اس وقت کپتان بابر اعظم سر فہرست ہیں تاریخ میں پہلی بار پاکستان کے چار بلے باز بابر، رضوان، فخر زمان اور امام الحق ٹاپ ٹین میں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ افتخار،حارث خان اور آصف علی بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں جبکہ بالنگ کے شعبے میں شاہین شاہ، نسیم شاہ، حارث روف، محمد وسیم، شاداب خان، محمدنواز کسی بھی بلے باز کو پریشان کرنے کی صلاحیت رکھتےہیں۔کرکٹ شائقین کی بھی یہی خواہش ہے جوشاہد آفریدی کی ہے کہ پاکستانی ٹیم کو ورلڈ کپ کھیلنے بھارت ضرورجانا چاہیے اوروہاں سےجیت کر آناچاہئے۔ توقع ہے کہ دی پاکستان وے سے کھلاڑیوں میں جیتنے کانیا جذبہ پیدا ہوگا۔


شیئر کریں: