Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کرپشن ام المسائل – محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

کرپشن ام المسائل – محمد شریف شکیب

بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اخترافغان نے مالی کرپشن پر موت کی سزا تجویز کرتے ہوئے کہا ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالی کے سامنے جوابدہی کا خوف ہوتا ہے وہ کرپشن کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ جن میں خدا کا خوف نہ ہو۔وہ بدعنوانی میں ملوث ہوتے ہیں انہیں موت کی سزا کا خوف ہی کرپشن سے روک سکتا ہے۔ثالثی کے ذریعے بین الاقوامی تنازعات کے حل سے متعلق جوڈیشل کانفرنس سے خطاب میں جسٹس نعیم اختر کا کہنا تھا کہ ہمارے قوانین میں ابہام کا فائدہ کرپٹ اور جرائم پیشہ عناصر اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے نیب کیسز میں پلی بارگین اور رضاکارانہ طور پر غبن کی گئی رقم کی واپسی کی شقوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ قانون سازوں نے دانستہ طور پر قوانین میں ایسے ابہام پیدا کرتے اپنے لئے راستے چنے ہیں۔ عام شہریوں، سرکاری ملازمین، افسروں اور اداروں کے لئے الگ الگ قوانین بنائے گئے ہیں جو امتیازی رویہ ہے ریاست میں بسنے والے تمام شہریوں کے لئے یکساں قانون ہونا چاہئے اور قانون شکنی پر سب کو ایک جیسی سزا ملنی چاہئے۔

 

جسٹس نعیم کا کہنا تھا کہ جب تک کرپشن پر موت کی سزا مقرر نہیں کی جاتی ۔ملک سے کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔پاک سر زمین کو کرپشن کی لعنت سے پاک کرنے کی خواہش رکھنےوالا کوئی بھی فرد جسٹس نعیم کے ان خیالات سے اختلاف نہیں کرسکتا۔پاکستان حاصل کرنے کا مقصد صرف انگریزوں اور ہندو اکثریت سے آزادی حاصل کرنا ہی نہیں تھا بلکہ بنیادی مقصد یہ تھا کہ اس خطے میں بسنےوالے مسلمان اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گذار سکیں۔جس کا غیر منقسم ہندوستان میں تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جب ملک آزاد ہوا تو بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے بطور گورنر جنرل ایک سال کے اندر دیانت داری، ایمانداری، امانت داری اور وطن سے محبت کی کئی قابل تقلید مثالیں قائم کیں۔ وہ اجلاسوں میں چائے، بسکٹ، کیک اور دیگر اشیائے خوردونوش کی شدید مخالفت کرتے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قوم کی امانت حکمران اپنی عیاشیوں پر خرچ نہیں کرسکتے۔یہ امانت میں سراسر خیانت ہے۔قائد اعظم اور قائد عوام نوابزادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اس ملک پر افسر شاہی کی حکومت قائم ہوئی۔انہوں نے ملکی قوانین بھی اپنے مفادات کاپیش نظر رکھ کربنائے۔ملک میں جمہوریت کاصرف ڈھونگ رچایا گیا۔ عوام کے منتخب نمائندوں کے پاس کبھی اختیارات نہیں رہے۔ سیاست دان بھی اپنے مفادات کےلئے افسر شاہی کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنتےرہے۔ ملک میں پہلی بار عوامی سیاست شہید ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کرنے کی کوشش کی۔تو انہیں نشان عبرت بنادیا گیا۔

 

اس کے بعد کسی کوبھی افسر شاہی سے عوامی مفاد کی بات منوانے کی جرات نہیں ہوئی۔ہمارے ہاں تعزیرات پاکستان کے نام سے جو قوانین رائج ہیں وہ انگریزوں کے وضع کردہ ہیں انہوں نے ہندوستان کی نوآبادیات کو قابو میں رکھنے کےلئے ایسے قوانین وضع کئے تھے۔ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد کسی حکمران کو یہ قوانین اسلامی تعلیمات، ملکی اقدار اورروایات کے مطابق ڈھالنے کی توفیق نہیں ہوئی۔قومی وسائل کوشیرمادر سمجھاجانےلگا اور انہیں لوٹنا بااثر افراد اپنا پیدائشی حق سمجھتے رہے۔ کئی عشروں تک چلتے رہنے سے کرپشن کرنا حکمرانوں اور سرکاری اعمال کا حق تصور کیا جانے لگا۔ جب قومی احتساب بیورو کے کچھ قوانین سے بااثر طبقے کے مفادات کو نقصان پہنچنے لگا توانہوں نے وہ قوانین ہی تبدیل کردیئے۔ اب نیب اربوں روپے سے کم کی کرپشن کے کیسز کی تحقیقات سے مبرا ہوچکا ہے۔جب بات اربوں روپےکی بدعنوانی تک آتی ہے تواس میں بھی یہ سہولت فراہم کی گئی کہ پلی بارگین کے تحت پانچ ارب روپے کی کرپشن پانچ کروڑ روپے رضاکارانہ طور پر ادا کرکے ملزم باعزت بری ہوسکتا ہے۔ اگر وہ پلی بارگین نہ کرنا چاہے تب بھی کوئی ادارہ یاریاست اس کاکچھ نہیں بگاڑ سکتی۔

 

بلاشبہ غیراسلامی،غیرقانونی اور غیراخلاقی جرائم کے مرتکب ہونے کی جرات وہی لوگ کرتے ہیں جنہیں خدا کے سامنے جواب دینے یا انصاف کے کٹہرے میں لائے جانے اور عبرت ناک سزا ملنے کا خوف نہیں ہوتا۔ کرپشن نے اس معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے۔ اسی کرپشن کی وجہ سے ہم اقوام عالم کے سامنے بھکاری بن گئے ہیں اور دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ آج بھی اگر کرپشن کی سزا پھانسی مقرر کی جائے تو قوم کی لوٹی گئی کھربوں روپے کی دولت واپس لائی جاسکتی ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کرپشن ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس پرقابو پالیاگیا تو دیگر تمام مسائل خود بخودحل ہوسکتے ہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
74761