Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بزمِ درویش ۔ چوروں کا خاندان ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Posted on
شیئر کریں:

بزمِ درویش ۔ چوروں کا خاندان ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

ملکہ بیٹی اپنے جوان بیٹے کے ساتھ بہت دنوں کے بعد میرے پاس آئی ہوئی تھی اُس کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ بتا رہا تھا کہ وہ کسی خوشخبری کے ساتھ آئی ہے وہ ملکہ بیٹی جو کہتی تھی اِس کرہ ارضی پر میرے جیسی بد قسمت منحوس دکھوں کی ماری کوئی اور نہ ہو گی لیکن آج چہرے پر طمانیت سے بھر پور زندگی کے رنگوں خوشیوں سے معمور تبسم کے ساتھ آئی تو مجھے دلی خوشی حاصل ہوئی رش کم ہوا تو میں نے ملکہ کو اشارہ کیا تو وہ اپنے جوان بیٹے کے ساتھ اٹھ کر میرے سامنے سر جھکا کر کھڑی ہو گئی میں نے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرا تو وہ لجا اور ادب بھرے لہجے میں بیٹے کو سا منے کر کے بولی باباجی اِس کے سر پر ہاتھ پھیر کر اِس کو بھی دعا دے دیں تو میں نے اٹھ کر اُس سے گلے ملا پھر اُس کے کندھوں پر تھپکی دے کر بہت ساری دعائیں دے ڈالیں دونوں کو دیکھ کر میری ساری تھکاوٹ دور ہو گئی تھی آپ کو سارا دن بے شمار لوگوں سے ملنا پڑتا ہے یہ ملاقاتیں زیادہ تر ڈرل ہی ہو تی ہیں اِس میں سے چند چہرے ایسے ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر آپ کے نہاں خانے میں خوشی کے غنچے کھل اٹھتے ہیں

 

سرشاری طمانیت کی لہریں آپ کے رگ واپے میں گردش کرنے لگتی ہیں ملکہ رانی اور اُس کے بیٹے کی میرے پاس آمد بھی ایسی تھی جن کو دیکھ اور مل کر میں ظاہری اور باطنی طور پر مسرت سے ہمکنار ہو ا تھا چند سال پہلے ملکہ جب بھی میرے پاس آئی زرد دکھی آنکھوں سے غم کا ساون بھادوں بھرا ہو تا وہ نان سٹاپ رو رو کر اپنے حالات سناتی دعاؤں کی طلب گار اور اپنے حالات پر دل گرفتہ ہو ئی لیکن آج اُس کا چہرہ خوشیوں کامیابی سے کھلا کھلا سا تھا یہی میری خوشی اور معاوضہ تھا جب بھی میرے پاس گردش ایام کے مارے دکھوں کی امر بیل میں جکڑے لوگ آتے ہیں اور پھر میں بارگاہ ِ الہی میں دعا کے ساتھ اُن کو وظائف وغیرہ دیتا ہوں اور پھر بعد میں جب وہ خوشیوں بھرے چہروں چمکتی آنکھوں سے واپس آتے ہیں تو دل باغ باغ ہو جاتا ہے میرے پاس آنے والوں کے زیادہ تر حالات تو نارمل سے ہوتے ہیں جو چند دنوں میں حل ہو جاتے ہیں لیکن کچھ ایسے بے بس مجبور لاچار دکھوں کی چکی میں پیستے لوگ آتے ہیں کہ اُن کی داستان غم سن کر شدید غم ہو تا ہے اور ان کو کوئی جلدی حل بھی نظر نہیں آتا ایسے لوگوں کو پھر حوصلہ امید دینا بار بار ان کا آنا اُن کی بات سننا ہر بار ان کو نیا حوصلہ دینا امید کے چراغ روشن کر نا ایسے کیس جب دیر بعد جا کر حل ہو تے ہیں تو جسم کا انگ انگ خوشی سے جھوم جاتا ہے

 

ملکہ کا کیس بھی ایسا ہی تھا جب ایک دن یہ دکھوں کی گٹھڑی بنی میرے پاس آئی میں نے جب بار بار کہا کہ کیا بات ہے تو خوف کی علامت ہر بار کہتی سر میں دکھی ہوں آپ سب سے مل لیں میں آخر میں آپ سے ملوں گی میرا مسئلہ بہت سنجیدہ اور خطرناک ہے میں نا امید ہو چکی ہوں میں کسی کے کہنے پر آخری امید کے طور پر آپ کے پاس آئی ملکہ کی عمر اُس وقت چالیس سال کے لگ بھگ تھی جب اُس نے بتایا کہ میں قرآن پاک کی حافظہ ہوں تو میری عقیدت اور بھی بڑھ گئی میں نے چند لوگوں سے ملنے کے بعد اُس کو بلایا اور کہا بیٹی اب تم تسلی سے آرام سے اپنی بات کر سکتی ہو تو اُس نے خوف زدہ نظروں سے ادھر اُدھر دیکھا کہ کہیں اُس کا کوئی آشنا تو نہیں کھڑا پھر ایک بند لفافہ خط میری طرف بڑھایا اور بولی سر آپ اِس کو خاموشی سے پڑھ لیں میری ہمت نہیں کہ آپ کو بآواز اپنی بات سنا سکوں پھر دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں مجھے ڈر ہے کہ کہیں کوئی سن نہ لے اورپھر مجھے اپنی زندگی کا خطرہ نہ پڑ جائے میں نے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر فوری طور پر لفافہ چاک کیا اور کئی صفحوں پر مشتمل خط کو پڑھنا شروع کیا

 

ملکہ نے اِس طرح شروع کیا سر میرا نام ملکہ رانی ہے میں والدین کی اکلوتی اولاد تھی اِس لیے میرے والد صاحب نے مجھے ملکہ رانی کہہ کر بلاتے تھے کیوں کہ میں اکلوتی تھی اِس لیے وہ مجھے شہزادیوں کی طرح لاڈپیار سے رکھتے تھے میں نے جیسے ہی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو قیامت ہی ٹوٹ پڑی میرے والدین خالہ کے پاس میری منگنی رشتے کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے کہ واپسی پر بس حادثے کا شکار ہو کر دونوں ہی مجھے روتی تڑپتی چھوڑ کر چلے گئے میرے ماتھے پر منحوس کا لیبل لگا دیا گیا کہ اب میں بے یارو مدد گار تھی خالونے اپنے بیٹے کے رشتے سے انکار کر کے میرے شادی میری مرضی کے بغیر کسی ایسے خاندان میں کردی جس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا تھا لڑکے اور سسرا ل والوں کی کوئی جانچ پڑتال بھی نہیں کی میں دلہن کا جوڑا پہن کر سسرال آگئی میں نے اِس فیصلے کو خدا کی رضا سمجھ کر قبول کر لیا میری شادی کے بعد خالو خالہ نے کبھی مڑ کر میر ی خیر خبر نہ لی میں نے خاوند کو مجازی خدا سمجھ کر زندگی کا آغاز کر دیا چند مہینوں بعد میں نے ایک چیز محسوس کی کہ میرے سسرال کے مرد کیا کام کرتے ہیں کہاں کرتے ہیں نوکری کس نوعیت کی ہے بلکل پتہ نہ چلتا تھا پراسراریت کی چادر تنی ہوئی تھی شادی والے دن بھی جب نکاح کے وقت اُن سے شناختی کارڈمانگے گئے تو انہوں نے کہا چند دن پہلے چوری میں سارے کارڈ کوئی اٹھا کر لے گیا

 

ابھی شرعی نکاح پڑھا لیتے ہیں بعد میں رجسٹر کروا لیں گے جو پھر کبھی نہ ہوا دوسری عجیب بات یہ تھی کہ یہ پانچ خاندان تھے جن کے بارے میں یہ کہتے یہ ایک دادا کی اولادیں ہیں شادی کو دو سال گزر گئے میرے دو بچے بھی ہو گئے لیکن مجھے سسرالی مردوں کے کام دھندے کا پتی نہ تھا جب بھی خاوند سے پوچھتی وہ کہتے ہم رات کو ایک فیکٹری میں کام کرتے ہیں میں نے ایک بات اور محسوس کی کہ میں اپنے خاوند کے ساتھ اوپری منزل پر رہتی تھی دن میں جب نیچے جاتی تو مختلف قسم کے سامان کپڑے جوتے برتن اناج وغیرہ مختلف گٹھٹریوں کی شکل میں پڑے ہوتے خاوند سے پوچھنے پر وہ کہتا ہم اس کی تجارت بھی کرتے ہیں میں جب بھی شناختی کارڈ کی بات کرتی خاوند بہانوں سے ٹال دیتا میں پریشان تھی کہ یہ کون لوگ ہیں کیا کرتے ہیں مجھے پانچ سال گزر گئے میں نے بچے کو سکول داخل کرانے کی کو شش کی تو خاوند نے پھر شناختی کارڈ نہ دیا اب میں کھوج میں لگ گئی کہ اِن کے شناختی کارڈ کیوں نہیں ہیں اور یہ بنواتے کیوں نہیں پھر ایک عجیب واقعہ ہوا میری نند کسی لڑکے کے ساتھ بھاگتے ہوئے پکڑی گئی اُس کو انہوں نے کمرے میں بند کر دیا ایک دن میں اُس کو کھانا دینے گئی تو اُس نے مجھے بتایا میں جب موقع ملے گا بھاگ جاؤں گی یہ چوروں کا خاندان ہے

 

سالوں سے راتوں کو مرد نکلتے ہیں مختلف جگہ چوریاں کرتے ہیں عورتیں مختلف گھروں میں نوکرانی کے طور پر جاکر چوری کرتی ہیں یا مردوں کو بلوا لیتی میں نند کی باتیں سن کر میں بہت پریشان ہوئی اپنے خاوند سے کہا تو یہ کر لو چھوڑ دو لیکن وہ نہ مانا اِس طرح دس سال گزر گئے اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے میں آپ کے پاس آئی ہوں کیا کروں کیونکہ میں طلاق کے لیے عدالت سے رجوع کر چکی ہوں ملکہ کی داستان پڑھ کر میں لرز گیا وہ چلی گئی چند دن بعد پھر آئی بولی میرے سسرال والوں کو جب پتہ چلا میں اِن کا راز جان چکی ہوں وہ مجھے چھوڑ کر کسی دوسرے شہر چلے گئے ہیں اب میں اکیلی ہوں میں نے ملکہ کو اپنے جاننے والے دوست کے مدرسے میں معلمہ رکھوا دیا پھر یہ کبھی کبھار میرے پاس آتی رہی آج اِس کا بیٹا سرکاری ملازم ہوا تو خوشخبری لے کر میرے پاس آئی بولی بابا جی آج میں خود کو مضبوط خیال کر تی ہوں آج میرا بیٹا سرکاری آفیسر ہے میں بھی بہت خوش ہوا کہ جب وہ چلی گئی تو سوچنے لگا ہمارے مہذب معاشرے میں کیسے کیسے درندے انسانوں کے روپ میں رہتے ہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
74725