Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بے بس بلدیاتی نمائیندے ۔ پروفیسرعبدالشکورشاہ

Posted on
شیئر کریں:

بے بس بلدیاتی نمائیندے ۔ پروفیسرعبدالشکورشاہ

الیکشن اور شادی سے پہلے کی توقعات بعد میں بہت کم ہی پوری ہوتی ہیں۔عموما الیکشن کے بعد عوام ہاتھ ملتی رہ جاتی، مگرآزادکشمیر میں بلدیاتی انتخابات کے بعد بلدیاتی نمائیندے ہاتھ اور پیٹ دونوں ملتے نظرآرہے ہیں۔بلدیاتی نمائیندوں کا سیاسی سیارہ گردش کے بجائے چکرا گیا ہے اسے سمجھ ہی نہیں آرہی اس کا محور کہاں ہے۔ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی سیاسی صورتحال نے ان کی دیہاڑی لگنے کے امکانات پر پانی پھیر دیا ہے۔ رات کو آپ پی ٹی آئ کے کارکن کے طور پر سوتے ہیں صبح آنکھ کھلنے پر پتہ چلتا آپ پی ڈی ایم کے کارکن بن چکے ہیں۔مقامی نمائیندوں کی حالت قابل رحم ہے،نا تو وہ کسی کی کال سن سکتے ہیں اور نہ ہی کوئ ان کی کال سنتا ہے۔جیب میں کرایہ نہیں، سکیمیں لینے کا وقت آیا نہیں،پارٹی لیڈر الیکشن کے بعد حلقے میں آیا نہیں۔صبح چھڑی ہاتھ میں پکڑتے، رومال کندھے پر ڈالتے بازار کا رخ کرتے ہیں۔ ادھار کی چائے،سگریٹ اور نسوار لیتے ہیں اور للچاتی نظروں سے کسی شکار کی تلاش میں رہتے۔

 

بازار والے انہیں کونسلر صاحب کہہ کر زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں۔رہی سہی کسر پڑھے لکھے نوجوانوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس نے نکال دی ہے۔مرتے کیا نہ کرتے کسی سے چکرفراڈ کرکے پیسے ہتھیائے اور کسی جلسے جلوس تک پہنچنے کے لیے دوڑ لگادی۔چلیں اگر اور کچھ نہیں چند دن نعروں کے بدلے مفت کی روٹی تو ملے گی ساتھ ہی پھیری والے سے کالے شیشے والی سستی عینک لیکر لگائ اور پارٹی لیڈر سے پہنچتے ہیں سیلفی لیکر سوشل میڈیا پر چڑھا دی چاہیے بعد میں کالی عینک کے ساتھ منہ بھی کالا کیوں نا ہوجائے۔بلدیاتی نمائیندوں کی یہ بے بسی اور ناگفتہ بہہ حالت،بناء اختیارات و بجٹ کے ذمہ دار بھی یہ خودہیں۔ان میں سے اکثر کو اپنے گھروالوں نے بھی ووٹ نہیں دیے بس یہ چاپلوسی،جی حضوری،جوتے پالش،سرسر،سہولت کاری،درباری بازی گری اور دیگررسیوں پر اچھلتے کودتے پارٹی سربراہ کی چمچہ گیری کے سبب منتخب ہوگئے ہیں۔آٹے میں نمک کے برابر عوامی نمائیندے ہیں باقی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے سیاسی مرید ہیں۔

 

ناشکری کی انتہا کا یہ عالم ہے جنہوں نے انہیں ووٹ دیکر کامیاب کرایا ان کی کوئ فکر نہیں مگر پارٹی پروگرام کے لیے بھاگے بھاگے جاتے ہیں۔اہل علاقہ اگر کسی مسلے کے حل کے لیے بات کریں تو اختیارات،بجٹ،پارٹی ایم ایل اے کے پاس وزارت نا ہونا وغیرہ کے قصے سناتے اور موقعہ ملتے ہی دم دبا کر رفوچکر ہوجاتے۔جب پارٹی سربراہ آجائے تو بجائے علاقائ مسائل اجاگر کرنے کے یہ مداح سرائ میں مگن ہوجاتے۔انہیں عوام کے بجائے پارٹی سربراہ پر یقین ہے یہ سمجھتے ہیں ان کی کامیابی عوامی ووٹ کے بجائے پارٹی ٹکٹ کی وجہ سے ہے۔اکثریت پارٹی سربراہ کے سامنے پاوں کے بل بیٹھنے والے ہیں اور ان میں عوامی مسائل پر بات کرنے کا دم خم نہیں ہے۔سوائے گنتی کے چند افراد کے کسی کو یہ بھی نہیں معلوم اس کے اختیارات کیا ہیں بجٹ کتنا ملنا کہاں سے کونسا کام کروانا کس محکمے کا کیا کردار ہے وغیرہ وغیرہ۔حتی کے بعض شگوفوں کو تو کونسلر کے معنی تک نہیں آتے نا ان کا کوئ سیاسی پس منظر ہے۔ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور ادوایات نہیں، کھانے کو آٹا نہیں، پینے کو پانی نہیں،سکولوں میں سٹاف نہیں،چلنے کو راستے نہیں مگر انہیں کسی عوامی کام سے کوئ سروکار نہیں ہے یہ تو بس اپنی دیہاڑی کے چکر میں رہتے ہیں۔

 

ہمارے ملک میں سیاست ایک کاروبار ہے یہاں جو بھی آتا ہے کمانے اور کھانے کے لیے آتا ہے۔پارٹی ایم ایل اے ان کے ساتھ ساس والا سلوک کرتا ہے اگر یوں کہا جائے ان کا سیاسی ساس بہو والا رشتہ ہے تو بےجانہ ہوگا۔جیتنے والوں کا یہ حال ہے ہارنے والوں کے دکھ والم کا اندازہ خودکرلیں ان کے دل پر کیا گزرتی ہوگی۔ہارنے والے حسب روایت اڑان بھر چکے ہیں اور جیتنے والوں کی حالت اس بندر کی طرح ہے جو اپنی ہی دم پھنسا بیٹھتا ہے۔کہیں کہیں کونسلز کی حرکت نظر آتی ہے وہ بھی بس اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے کہ ہم بھی کونسلرز ہیں۔کھچڑی حکومت میں کسی کو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہی کس کی حکومت ہے اور کس کی نہیں۔جس پارٹی کی پہلے حکومت تھی اس کے نمائیندے جیتے اب نا تو پارٹی رہی اور نا امیدیں بلدیاتی نمائیندے ناتوہنسنے کے قابل ہیں اور ناہی رو سکتے ہیں۔جہاں سے جس پارٹی کے امیدوار جیتے وہاں ایم ایل اے کے پاس وزارت نہیں اور جہاں پہ وزارت ہے وہاں سے امیدوار نہیں جیتے۔

 

اب عوام نمائیندوں کے پاس مسائل کے حل کے لیے جانے کے بجائے اپنے آپ کو لطف اندوز کررہے ہیں ایسے کھٹ پتلی نمائیندے بندری کے کرتب سے زیادہ دلچسپ ہوتے۔ان کی اپنی کوئ سوچ نہیں، کوئ ساکھ نہیں، کوئ نظریہ نہیں، کوئ اپروچ نہیں، کوئ معلومات نہیں۔ یہ توعوامی مسائل کے حل کے لیے اپنے پیڈ اور مہر تک پارٹی سربراہ کی مرضی و منشاء کے خلاف استعمال نہیں کرسکتے۔ سب سابقہ سکیم خور ہیں جب کبھی عوامی مسلے پر غلطی سےبات کرنے کا خیال آجائے تو اس کی سابقہ سکیموں کی تفصیل یاد کروائ جاتی ہے اور اگر پھر بھی کونسلری کا جوش نا جائے تو پارٹی کا پروپگنڈہ ونگ اس کے خلاف متحرک ہوجاتا ہے۔ایسے بھی ڈسٹرکٹ کونسلرز ہیں جو عرصہ دراز سے اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے بدنام ہیں مگر موجودہ سیاسی صورتحال میں وہ بھی بے بس دکھائ دیتے ہیں ۔اس ساری سیاسی نوراکشتی میں عوام کے پانچھ سال ضائع ہوتے دکھائ دیتے ہیں۔وادی نیلم کا تو باواآدم ہی نرالا ہے تین تین ایم ایل اے اور تھوک کے حساب سے مشیران کے باوجود ضلع نیلم مسائلستان بنا ہوا ہے۔آزادکشمیرمیں ایم ایل اے کی نسبت ایک نائ،موچی اور قصائ مسائل سے زیادہ آشنا ہے کام تو ان کے ملتے جلتے ہیں نائ بال کاٹتا ہے ایم ایل اےمال بانٹتا اور کاٹتا ہے، موچی دھاگے سےجوتے سیتا ہے ایم ایل اے سکیموں سے منہ سیتا ہے قصائ جانوروں کی گردن پر چھری چلاتا ہے ایم ایل اے انسانوں کی گردن پر چھری چلاتا ہے ان کی امیدوں کا قیمہ بناتا ہے،ان کے ارمانوں کی سیخیں بناتا ہے،ان کی امنگوں کے کوفتے بناتا ہے،ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی نہاری بناتا ہے اور صبح دوپہر شام کھاتا ہے۔سیاستدانوں کا پیٹ نہیں بھرتا جنگل کھا گئے،دریا پی گئے،معدنیات ہڑپ،جڑی بوٹیاں شڑپ،سکول کالج اور ہسپتال گڑپ اور عوام تڑپ تڑپ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
74698