Chitral Times

May 29, 2023

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

 یہودی علماء کی اسرائیلی حکومت کو دھمکی؛ مالیات بڑھانے کامطالبہ:حکومتی اتحادمیں ایک اوربڑارخنہ – ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

Posted on
شیئر کریں:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 یہودی علماء کی اسرائیلی حکومت کو دھمکی؛ مالیات بڑھانے کامطالبہ:حکومتی اتحادمیں ایک اوربڑارخنہ

ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

دی ٹائمزآف اسرائیل ۱۸مئی۲۰۲۳ء کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی پارلیمان میں یہودی علماء کی مذہبی جماعتوں کے اتحادNTJ(United Torah Judaism)”متفقہ اتحاد یہود”نے حکومت کوسخت اندازمیں دھمکی دی ہے کہ دوہفتے بعد پیش ہونے والے سالانہ مالیاتی منصوبے میں ان کاحصہ یقینی طورپربڑھایاجائے اور جو لوگ مذہبی تعلیم سے وابسطہ ہیں ان کے اوران کے اہل خانہ کے لیے جاری مالی اعانت میں اضافہ کیاجائے۔”اگتاداسرائیل”نامی مذہبی جماعت جومذکورہ اتحادکا اہم حصہ ہے اور پالیمان میں اس اتحادکی سات نشستوں میں سے تین نشستیں ان کے پاس ہیں ،ان کے راہنماوں نے بدھ ۱۷مئی2023 کوایک اجلاس کے بعد حکومت کوسخت الفاظ میں پیغام دیاہے کہ کم و بیش دوہفتوں بعدپارلیمان میں پیش ہونے والے ریاستی مالیاتی منصوبے کی منظوری میں وہ کوئی حصہ نہیں ڈالیں گے بلکہ اس کی مخالفت پرکمربستہ ہوجائیں گے۔ان کامطالبہ ہے کہ ان کے لیے مختص کی گئی رقوم میں 164ملین ڈالرزکامزیداضافہ کیاجائے جب کہ اس سے پہلے بھی مذہبی طبقے کے لیے3.7 بلین ڈالر جتنی ایک خطیررقم رکھی گئی ہے۔یہودی مذہبی جماعتوں کے جماعتوں کے اتحادنے اپنے اسی مذکورہ اجتماع میں فیصلہ کیاکہ حکومت کے ساتھ کیے گئے معاہدےکوختم کردیاجائے کیونکہ حکمرانوں نے کل وقتی مذہبی ادارے اورجزوقتی مذہبی تعلیمی اداروں(yeshivah and avrechi schools)کی مالی معاونت کے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔

 

متفقہ اتحاد یہود(United Torah Judaism)۱۹۹۲میں بنایاگیا۔یہ بنیادی طورپر دو مذہبی جماعتوں اگتاداسرائیل (Agudat Israel)یعنی “اتحاداسرائیل”اوردیگل توراۃ(Degel HaTorah,) یعنی”پرچم توراۃ”کامجموعہ ہے۔اس اتحادکامقصد ریاست اورمذہب کے درمیان اچھے تعلقات کافروغ اور پارلیمان میں انتہاپسنداوربنیادپرست یہودیوں کی نمائندگی میں اضافہ کرناتھا۔اسرائیلی انتخابات میں یہ اپنے امیدواروں کی مشترکہ فہرست جمع کراتے ہیں اور دوجماعتیں ہونے کے باوجود “متفقہ  اتحادیہود”کے ایک نام سے اورایک ہی انتخابی نشان سے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔ان دونوں جماعتوں کے اندر سب سے بزرگ ربی(یہودی عالم)ان کاسربراہ ہوتاہے جو اپنی حتمی رائے دیتاہے پھراس رائے پر عمل درآمدکرنے کے لیے Moetzes Gedolei HaTorahنام کی ایک شورائیت ہے جہاں ان فیصلوں کے مختلف پہلوں پر غورکرکے انہیں نفاذکے لیے جاری کردیاجاتاہے۔اس کونسل میں بھی رکنیت حاصل کرنے والے عمررسیدہ علمائے یہود”ربی”ہوتے ہیں ۔۲۰۰۴میں یہ اتحادی جماعت اپنے اندرونی شدیداختلافات کاشکارہوگئی لیکن ۲۰۰۶ میں یہ پھراتحادمیں آگئے تاکہ ان کے رائے دہندگان کی تعدادباہم تقسیم ہونے سے بچ جائے۔اپریل ۲۰۱۹کے انتخابات میں انہوں نے آٹھ نشستیں حاصل کیں جواب تک کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہیں۔مملکت اسرائیل کایہ واحد منتخب  مرکزی نمائندہ ایوان ۱۲۰نشستوں کاحامل ہے اوراس وقت حکومتی اتحاد کے پاس ۶۴نشستیں ہیں،اس لحاظ سے مذہبی جماعتوں کے یہ آٹھ نمائندے اپنافیصلہ کن کرداراداکرسکتے ہیں اورکررہے ہیں۔یہ اتحاد قدامت پسندیہودیوں کی جماعت ہے اورجدت پسندی کے بالکل برخلاف ہے۔

 

دوسری طرف سرکاری عہدیداروں کاکہناہے کہ اسرائیلی کرنسی کے13.7ملین ان  مذہبی تعلیمی اداروں پرخرچ کرچکے ہیں لیکن معاہدے کے باوجودان مذہبی اداروں کے ذمہ داران  مذہبی  طالب علموں کومیتھ،سائنس اورانگریزی کی تعلیم دینے میں ناکام رہے ہیں۔تفصیل بتاتے ہوئے مزیدکہاکہ نجی مذہبی تعلیمی اداروں پر بھی اسرائیلی کرنسی کے حساب سے 1.2بلین کے اخراجات ہوچکے ہیں لیکن یہاں بھی یہی شکایت ہے کہ عصری مضامین انگریزی اور سائنس وغیرہ پرتوجہ کا شدید فقدان ہے۔انہوں نے بتایاکہ “شاس” سیاسی جماعت(Shas party)کے راہنما آریہ داری(Aryeh Deri)نے بھی اپنی جیب سے کم و بیش ایک بلین اسرائیلی کرنسی کے برابراخراجات ان اداروں کے صرف طعام پرخرچ کیے ہیں اورمذہبی اداروں کی عمارات،ان کی تقریبات،مذہبی رسومات اور دیگر ثقافتی و معاشرتی رسومات پر بے دریغ خرچ ہونے والے وسائل ان کے سواہیں۔

 

ان سب حالات میں وزیراعظم بن یامین یتن ناہوکی حکومت کے پاس بمشکل دوہفتوں کی مہلت ہے جس میں انہوں نے فیصلہ کرناہے۔اگراس مدت میں سالانہ مالیاتی منصوبہ پارلیمان سے منظورکرانے میں حکومت ناکام رہی توپارلیمان خودبخودسے تحلیل ہوجائے گی اورریاست کونئے انتخابات کی طرف پیش قدمی کرنی ہوگی۔ان ہوشرباحالات پر اسرائیلی وزیرخزانہ بزلال سمورک(Bezalel Smotrich)نے باربارکہاکہ کہ محصولات کی وصولیابی میں بے پناہ کمی کے باعث اس دفعہ کا خسارہ بہت زیادہ ہے اوراس پرمستزادیہ کہ حکومتی اتحادیوں نے بھی حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کردی ہیں۔اس سب کے باوجود مذہبی جماعتیں اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیارنہیں ہیں۔

 

یہودیوں کے مذہبی طبقے کوقرآن مجیدنے خاص طورپر مخاطب کیاہے اورکہاکہ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ترجمہ:”اے ایمان والو ! (یہودی) احبار اور (عیسائی) راہبوں میں سے بہت سے ایسے ہیں کہ لوگوں کا مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں ، اور دوسروں کو اﷲ کے راستے سے روکتے ہیں ۔ اور جو لوگ سونے چاندی کو جمع کرکے رکھتے ہیں ، اور اُس کو اﷲ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، اُن کو ایک دردناک عذاب کی ’’ خوشخبری ‘‘ سنادو۔یہودی تاریخی طورپراپنے آپ کو حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل سے گردانتے ہیں،عہدنامہ قدیم کے مطابق اس برگزیدہ نبیؑ کاایک بیٹاجب بادشاہ مصرکے ہاںروک لیاگیاتوباقی دس بھائی اپنے گھروں کاکل سامان لے  کر بادشاہ کے حضورپیش ہوئے اورقسمیں کھاکر کہنے لگے کہ اے بادشاہ اپنی کل متاع حیات اورجمع پونجی  لے آئے ہیں،کچھ بھی چھوڑ کرنہیں آئے،تجھے تیرے خالق کاواسطہ یہ سب سامان لے لے اورہمارے بھائی کوچھوڑ دے کیونکہ ہمارابوڑھا،عمررسیدہ اورنابیناباپ ہمیں گھرمیں داخل  نہیں ہونے دیتا۔ایک نبی علیہ السلام کے گھرسے لخت جگرکی بازیابی کے لیے برآمدہونے والایہ سامان بستروں،جوتوں،برتن،جانوروں کے قلاوے،فصل کاٹنے کے اوزاراورکچھ دیگرگھریلوضروری اشیاء کے سواکچھ نہ تھااوریہ کل متاع بمشکل دویاتین گٹھڑیوں میں بندتھی۔اس نبی علیہ السلام کی وراثت کے  ان دعوے داروں کی حوس نفس کے سامنے لاکھوں اورکروڑوں ڈالرکی خطیررقومات بھی ہیچ ہیں،الامان والحفیظ۔یہودی علماء کے اس زرپرستانہ رویے سے مملکت اسرائیل کے مخدوش اور غیریقینی مستقبل کااندازہ لگانا کچھ دشوار نہیں،ان شااللہ تعالی۔

drsajidkhakwani@gmail.com


شیئر کریں: