Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

( دُکھی بیٹی) – سب مایا ہے!!! – تحریر : یاسمین الہٰی قاضی

شیئر کریں:

( دُکھی بیٹی) – سب مایا ہے!!! – تحریر : یاسمین الہٰی قاضی

“دنیا فانی ہے” یہ جملہ تقریباً ہوش سنبھا لتے ہی سننے کو ملی، مذہبی گھرانہ تھا اس لئے دنیا کی بے ثباتی، موت اور اچھے اعمال کی طرف رہنمائی اور برے اعمال سے بچنے کی تلقین جیسے دینی موضوعات پر تقریبا ہر روز کچھ نہ کچھ سننے کو ملتا رہتا، میرے بابا جانی ہمیشہ کچھ نہ کچھ مثبت چیزیں سمجھاتے اور سیکھاتے رہتے ۔۔دنیاوی آسائشات، عیاشیات، زیبائشات کے بجائے اخروی کامیابی کے حصول میں نہ صرف خود ہروقت کوشاں نظر آتے بلکہ ہمیں بھی تلقین کرتے رہتے ۔البتہ ہمیں پڑھا لکھا کر اچھے عہدے پر فائض دیکھنے کے متمنی ضرور تھے ۔ جہاں پڑھنے لکھنے یا سیکھنے کی بات آتی ان کا انداز ہی الگ ہوتا ۔تب آپ صرف اور صرف اُستادمعلوم ہوتے، فطرتاً کم گو ہونے کے باوجود تب تک سمجھا تے رہتے جب تک سننے والا وہ بات اچھی طرح سمجھ نہ جاتا۔

شاید اسی لیے” دنیا فانی ہے” سمجھانے کے لیے خود ہی اس دنیا کو ہمیشہ کےلئے الوداع کہہ گئے۔ کیونکہ ان کا چلے جانا ایسی تلخ مثال تھی کہ اس کے بعد کُچھ سمجھانے کی ضرورت ہی باقی نہ تھی، جب تک صرف سنتے یا بولتے رہتے تھے اس کی درست سمجھ نہیں آئی تھی ان کے جانے کے بعد اس تلخ حقیقت سے پوری طرح واقف ہوگئے ۔

ہمیں اس حقیقت سے آشکار کر گئےکہ سب کو لوٹ کر اسی بزرگ و برتر ذات کی جانب لوٹ کر جانا ہے، جو ہمیشہ سے ہے جِس کی بادشاہی ہے اسی کی بادشاہی ہو گی باقی سب فانی ہے سب مایا ہے !!

میری خواہش تھی کہ بابا جانی کی زندگی میں کیریئر کے حوالے سے مجھے کوئی بڑی کامیابی ملے، جس طرح ہر والد کی اپنے اولاد کی مستقبل کےلئے خواہش ہوتی ہیں، اسی طرح میرے والد کی بھی خواہش رہی تھی، میں کیریئر کے حوالے سے ملنے والی بڑی کامیابی کے موقع پر والد محترم کے ساتھ کی خواہش ہر بیٹی کی طرح میرے دل میں بھی رہی تھی، بڑی کامیابی تو الحمدللہ مجھے مل گئی مگر! آہ ۔۔!افسوس!! یہ کامیابی تب ملی جب والد صاحب ہمیں داغ مفارقت دیکر ابدی نیند سوگئے۔۔ میرے پیارے والد ہماری زندگی میں روشنی بکھیرنے والا چمکتا دمکتا سورج دو سال بیشتر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا تھا دنیا میں شاید ہر خوشی ادھُوری ملتی ھے!!!اه!! کبھی سوچا نہ تھا… کہ اپنی بڑی کامیابی اپنے بابا جانی کے بغیر منانی پڑے گی ۔دل آگر چه بہت مغموم و افسردہ ہے لیکِن اپنے ربّ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے کیوں کہ میری عظیم والدہ میرے ساتھ ہیں ۔الحمدللہ!!.

 

جہاں بابا جانی کے ساتھ نہ ہونے کا دکھ دل کو دیمک کی طرح چاٹنے لگتا ہے، وہاں والدہ کی موجودگی،سرپرستی کا احساس مجھے خوش رکھنے کے لیے کافی محسوس ہوتا ہے ۔بےشک ہم اپنے رب کی کسی نعمتِ کو جھٹلا نہیں سکتے ۔ اللہ میری عظیم والدہ کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے، تندرستی والی زندگی عطا کرے ان کا سایہ تا قیامت ہمارے سروں پر سلامت رکھے آمین ثمہ آمین یارب العالمین!! دل پارہ پارہ ہوگیاجب اتنی بڑی کامیابی کی خوشخبری، جو کہ میرے بابا جانی کی بھی دلِی خواہش تھی سنانے کے لیے وہاں جانا پڑا جہاں دل “کامیابی “کی خوشی بھول کر ان کی جدائی کے غم کی اتھاه گھرائیوں میں ڈوبا ہوا تھا ۔ جہاں مری کائنا ت میرے بابا جانی منوں مٹی تلے آرام فرما تھے ۔دل میں طوفان برپا تھا آنکھوں میں آنسو اور حسرت ۔ لیکن ہماری ذرا سی پریشانی میں بےچین ہونے والے والد سکوت اختیار کرچکے تھے۔اور میں اُن کا جواب سننے کی آرزو مند تھی۔۔۔اس دُنیا سے جانے والوں کا رابطہ اِس دُنیا سے ٹوٹ جاتا ہے،

 

یہ بات ہمیشہ سے مجھے دکھ دیتی ہے ۔۔ اس وقت کی دلی کیفیات نوک قلم تک لانے کے لیے سارے الفاظ بے وقعت اور بے معنی معلوم ہو رہے ہیں۔۔۔۔ اپنے آنسو خود پونچنے والی بیٹی کے دکھ کی کاٹ کو کوئی محسوس نہیں کر سکتا، اس وقت اپنے آنسو خود پونجھ کر لوٹتے ہوئے دل میں خیال آیا ۔۔۔ ۔ اب والد سے باتیں کر نے یا ان کی پیاری آواز سننے کے لیے میں خوابوں کی محتاج ہو گئ ہوں ۔کہتے ہیں کہ غم بانٹنے سے کم ہوتا ہے اس لیے اپنے احساسات و جذبات کو عیاں کر رہی ہوں، شاید اس طرح یہ غم کچھ کم ہو۔ اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا ھے کہ وقت ہر دکھ کی دوا ہے وقت کے ساتھ ساتھ غم کم ہو جاتے ھیں، لیکِن بابا جانی کی جدائی کے لمحات کو دنوں میں،دنوں کو مہینوں میں، مہینوں کو برسوں میں بدلتے ہوئے ضرور دیکھا، مگر اس غم کی شدت میں کوئی کمی محسوس نہیں کی۔ ہاں البتہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت ضرور واضح ہو گئ، یہ غم صرف میرا ہی ہے۔ارد گرد کے لوگوں کے لیے گذرا ہوا ایک واقعہ بن چکا ہے بس اور کچھ نہیں ۔۔۔!
۔ والد کی جدائی ہمیں کیا کُچھ سمجھاگیا، اور کیا کچھ سیکھا گیا، بتانے سے قاصر ہوں، اب رہ گئی صرف اُن کی باتیں یا پھر لو دیتی ہوئی یادیں۔۔۔

میری یہ بے ربط،بےجوڑ الفاظ جس کسی کے سامنے سے گزریں اِلتجا ہے، میرے بابا جانی کے ایصال ثواب کےلئے ایک دفعہ سورۃفاتحہ اور تین بار سورۃ اخلاص پڑھ کر بخش دیجیے گا ۔ ممنون رہوں گی ۔

مجھ سمیت جتنے لوگوں کے والد اس جہاں سے رخصت ہوئے ہیں اللہ اُن کو اپنے جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں اور جن کے والد بزرگوار حیات ہیں اُن کوتا حیات ایمان اور سلامت والی زندگی عطا فرما،، آمین یارب العالمین ۔۔۔

تحریر: یاسمین الہٰی قاضی
چترال


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
74511