Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مسکرا کر کیوں دیکھا- میری بات:روہیل اکبر

Posted on
شیئر کریں:

مسکرا کر کیوں دیکھا- میری بات:روہیل اکبر

لگتا ہے کہ ہم اس جگہ جا رہے ہیں جہاں واپسی کا راستہ نہیں ملتالیکن شکر ہے کہ سپریم کورٹ نے ہمیں بچا لیا اور اور واپسی کے راستے پر ڈال دیا اور اب ہم اسی سپریم کو رٹ پر ڈنڈوں اور سوٹو ں سے چڑھائی کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس نے مسکرا کر کیوں دیکھا اس وقت ملک کی سیاسی صورتحال تو خراب ہے ہی ساتھ میں معاشی صورتحال بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے رہی سہی کسر ورلڈ بنک کی تازہ روپورٹ نے پوری کردی اس رپورٹ پر بات کرنے سے پہلے کچھ ذکر ان مسائل کا جن سے ہم 74سال گذرنے کے باوجود نہیں نکل سکے ہماراملک انتشار اور بدامنی سے باہر نہیں نکل سکااب بھی اگر کچھ لوگ تحمل، برداشت اور عوام دوستی کے تحت دور رس فیصلے کرلیں اور پاکستان میں سیاسی، معاشی اور دفاعی استحکام سمیت امن و امان قائم رکھنے کے لیے عوامی میثاق کا معاہدہ کرلیا جائے تو پھر کسی کو کسی کے فریج سے دہی کا ڈبہ اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی

 

یہاں پر ہمارے بڑے بڑے سیاسی رہنماؤں نے کوئی کام کیا اور نہ ہی ہم نے انہوں نے اپنے حصے کی لوٹ مار کی اور ہم نے اپنے جثے کے مطابق بابائے قوم کی وفات کے بعد کوئی بھی سیاسی جماعت اپنی حدودِ اور حقیقی جمہوری تصور سے آگے نہ بڑھ سکی حکمرانوں اور عوام کے درمیان پیداہونا والا فاصلہ غربت اور پسماندگی کے طویل سلوک کی وجہ سے ہے عوام کو انصاف اور اختیار دیا جاتا تو کبھی شخصیت پرستی، موروثیت اور خاندانی مفادات آڑے نہ آتے حالانکہ بنیادی جمہوریت عوام کی خوشحالی سے وابستہ ہوتی ہے اور جب جمہور ہی مشکل میں ہو تو اعلیٰ اخلاقی روایات بھی دم توڑ جاتی ہے بدقسمتی سے پاکستان میں محرومی، ناانصافی اور اختیارات کی رسہ کشی نے نظام کو ڈرائنگ روم اور محلات تک محدود کیاہوا جب تک اختیار عوام کے پاس نہیں جاتا تب تک انصاف بھی نہیں ہوگا آپ ابھی گذرے ہوئے چند دنوں کا حساب کرلیں ہماری املاک کو جو نقصان پہنچا وہ ناقابل بیان ہے اسکے ساتھ ساتھ ملک بھر میں بند کی جانے والی انٹر نیٹ کی سہولت کے باعث پاکستان کو 1 ارب60 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان بھی پہنچ چکا ہے اس وقت پاکستان میں موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد 12 کروڑ 50لاکھ ہے جن کا موبائل کمپنیوں کو ریونیو نہ صرف بند ہو کر رہ گیا ہے بلکہ حکومت کو بھی حصول ٹیکس کی مد میں کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا ہے

 

گذشتہ روز لاہور ہائیکورٹ کے معزز جج صاحبان کی باتیں بھی عقل والوں کے لیے ایک پیغام ہیں جسٹس انوار الحق پنوں نے وکیل پنجاب حکومت سے کہا کہ سیاسی انتقام ہمارے ملک میں پرانا وتیرہ ہے ریاست اپنے رویے پر بھی نظر ثانی کرے پولیس کی جگہ رینجرز کو بھیجیں گے اور کالر سے پکڑ کر کھینچیں گے تو عوام میں انتشار آئے گا کیا ایسے گرفتار کیا جاسکتا ہے جس طرح آپ نے گرفتار کیا شیشے توڑے گئے اور شیشے توڑنا غلط کام تھا عام آدمی کسی کا دروازے توڑے تو فوری دفعہ 427لگتی ہے آپ لوگوں کے گھروں میں چھاپے مار رہے ہی توڑ پھوڑ کررہے ہیں اس پر قانونی دفعہ کیوں نہیں لگتی، آپ نے سپریم کورٹ کے ساتھ پچھلے ایک سال میں کیا کیا ہے آپ اخبارات سے چیزیں پڑھ کر عدالتوں میں پیش ہوجاتے ہیں اب کچھ باتیں ورلڈ بینک کی تازہ رپورٹ کی بھی کر لیتے ہیں جس میں انہوں نے پاکستان میں انسانی سرمائے کی کمزور حالت پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان میں انسانی سرمائے کی حالت ہیومن کیپیٹل انڈیکس کے مقابلے میں جنوبی ایشیائی اوسط 0.48 سے بھی کم ہے۔

 

پاکستان میں انسانی سرمائے کے نتائج رشتہ دار اور مطلق دونوں لحاظ سے اوسط سے کم ہیں جنوبی ایشیائی ممالک کے اسی زمرے میں، بنگلہ دیش کی ایچ سی آئی ویلیو 0.46 ہے اور نیپال کی ایچ سی آئی ویلیو 0.49 ہے جبکہ سب صحارا ممالک کے لیے HCI اوسط 0.40 ہے اور پاکستان کے لیے HCI کی قدر 0.41 ہے پاکستان میں معاشی طور پر سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے گروپوں کے انسانی سرمائے کے نتائج ہم مرتبہ ممالک کے کم معاشی طور پر فائدہ مند گروپوں کے مقابلے میں کم ہیں اگر انسانی سرمائے کی ترقی کی موجودہ شرح جاری رہی تو پاکستان 2047 تک اپنی فی کس جی ڈی پی (مجموعی گھریلو پیداوار) میں محض 18 فیصد اضافہ کر سکے گا اسی طرح ابتدائی بچپن کی نشوونما کے اعدادوشمار بھی انتہائی تشویشناک ہیں صرف 40 سے 59 فیصد بچے ان کے والدین کی طرف سے درست ترقی کی راہ پر گامزن ہیں جبکہ درمیانی آمدنی والے ممالک میں اوسط 75 فیصد ہے اس کے علاوہ پانچ سال سے کم عمر کے 40 فی صد بچے سٹنٹڈ ہوتے ہیں 18 فی صد ”ضائع” ہوتے ہیں پاکستان میں اس وقت سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 20.3 ملین ہے سیلاب (2022) اور وبائی امراض سے پہلے پاکستان میں غربت کی شرح 75 فیصد اور سیلاب کے بعد 79 فیصدہوگئی ہے

 

انسانی سرمائے سے حاصل ہونے والے معاشی فوائد کا ادراک صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب لوگ اپنی صلاحیتوں اور ذہانت کو پیداواری سرگرمیوں میں استعمال کریں محنت کے استعمال کے بعد ایچ سی آئی کی قدر مردوں کے لیے محض 0.31 اور خواتین کے لیے 0.08 ہے، جو معاشی سرگرمیوں میں مردوں اور عورتوں کی شرکت میں وسیع فرق کو ظاہر کرتی ہے پاکستان کے معاملے میں خواتین کی لیبر فورس کی شرکت کل لیبر فورس کے فیصد کے طور پر صرف 20 فیصد ہے ورلڈ بنک کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں انسانی سرمائے کی حالت میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ملک میں انسانی سرمائے کی ابتر صورتحال کو دور کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ”زندگی کے چکر کے دوران انسانی سرمائے کی تعمیر” کا ایک جامع طریقہ تجویز کیا گیا ہے جو بچپن کے پہلے مرحلے میں شروع ہوتا ہے اس مرحلے میں ماں اور بچے دونوں کی قبل از پیدائش اور بعد از پیدائش کی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے بچے کو مائیکرو نیوٹرینٹس کی مسلسل فراہمی کی جاتی ہے تاکہ اس کا جسم جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے اہم تعمیراتی بلاکس حاصل کر سکے خاندانی منصوبہ بندی اس ”زندگی کے چکر میں انسانی سرمائے کی تعمیر” کے پہلے مرحلے کا ایک اور ضروری حصہ ہے۔ پروگرام کا دوسرا مرحلہ بچے کی ”اسکولنگ” سے متعلق ہے جس میں امیونائزیشن اور نیوٹریشن پروگرام، والدین کی مثبت مدد، ابتدائی بچپن کی تعلیم اور پانی، صفائی اور حفظان صحت کی خدمات کا مطالبہ کیا گیا ہے جہاں تک زندگی کے بعد کے مراحل کا تعلق ہے رپورٹ میں اسکی نشاندہی بھی کہ گئی ہے کہ جامع سماجی پنشن، سستی اور قابل رسائی صحت کی دیکھ بھال، اور عمر کے لحاظ سے سمارٹ انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے لیے پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے نہ کہ ہم اس بات پر ہنگامہ کردیں کہ چیف جسٹس نے مسکرا کر کیوں دیکھا۔


شیئر کریں: