Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

معیشت کا عوامی تصور – محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

معیشت کا عوامی تصور – محمد شریف شکیب

عام پاکستانیوں کو معاشی شرح نمو، افراط زر، سٹاک ایکس چینج کے کاروبار میں تیزی یا مندی، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی بیشی، ڈالر کی قیمت میں اتارو چڑھاو، سونے کے بھاو، آئی ایم ایف کے قرضوں، برآمدات و درآمدات میں کمی بیشی اور بجٹ میں پیش کئے جانے والے اعدادوشمار کے گورکھ دھندے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ وہ ملک کی معیشت کو اپنے گھر کے روزمرہ اور ماہانہ اخراجات کے ترازو میں تولتا ہے۔ وطن عزیز میں اکثر لوگ اپنے کچن کے سودا سلف کے بل کا گذشتہ سال سے موازنہ کر کے اس پریشانی میں مبتلا ہیں کہ آخر اتنی ہی مقدار میں اتنی چیزیں اس قدر زیادہ قیمت پر کیوں خریدنی پڑ رہی ہیں۔مثلاً اگر گذشتہ سال آپ نے سبزی، گوشت اور دیگر سودا سلف خریدنے کے لئے دکاندار کو چھ ساڑھے ہزار روپے ادا کیے تھے تو اب وہی سامان 45 فیصد اضافے کے ساتھ گیارہ ہزار روپے پڑنے لگا۔

 

محکمہ شماریات کے مطابق ملک میں اپریل کے دوران افراط زر کی شرح 36.4 فیصد تک جا پہنچی جو کہ 2022 میں معاشی بحران میں مبتلا ہوکر دیوالیہ ہونے والے ملک سری لنکا سے بھی زیادہ ہے۔سرکاری ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں اس وقت کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ 48 فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے۔ قیمتوں میں اضافے کے بعد پیدا ہونے والی اس صورتحال میں ملازمت پیشہ لوگوں کو بھی اپنے معیارِ زندگی میں کچھ تبدیلیاں لانا پڑی ہیں۔20 کلو آٹے کا تھیلا جو مئی 2022 میں 967 روپے کا تھا، اب قیمت میں 300 فیصد اضافے کے بعد 3200 روپے کا ہوگئی ہے۔روزمرہ خریداری میں شامل اشیاء کی قیمتوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتاہے کہ مہنگائی نے شہریوں کی گھریلو خریداری کوسب سے زیادہ متاثرکیا ہے۔

 

مثال کے طور پر ایک سال قبل آپ کچن کی روزمرہ ضرورت کی چیزیں جتنے پیسے دے کر خریدتے تھے۔ آج وہی چیزیں تین گنا زیادہ قیمت دے کر خریدنی پڑرہی ہیں۔ مثال کے طور پرایک سال پہلے کھانے کاتیل 185روپے لیٹر تھا آج وہی تیل 640روپے کا ہوگیا ہے۔ سیلہ چاول ایک سال قبل 160روپےکلو ملتا تھا آج وہی چاول 350روپے کلو ہوگیاہے۔ مرغی کا گوشت125روپے کلو تھا آج 345روپے کلو ہوگیا ہے۔ ایک کلو آٹا 50روپےمیں ملتا تھا جو آج 160روپے کا ہوگیا ہے۔پٹرول 140اور ڈیزل150روپے لیٹر ملتا تھا آج پٹرول 272اور ڈیزل 295 روپے لیٹر ہوگیا ہے۔ دالوں، مصالحہ جات، چینی،نمک، سبزیوں اور پھلوں سمیت روزمرہ ضرورت کی ہر چیز کی قیمت دو سو سے تین سو فیصد بڑھ گئی ہے۔ یہ مان بھی لیا جائے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمت بڑھی ہے اور ڈالر کے مقابلےمیں ہمارا روپیہ بے قدر ہوگیا ہے۔

 

درآمدی اشیاءپراخراجات بڑھ گئے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والی چیزیں درآمدی اشیاء سے بھی زیادہ کیوں مہنگی ہوگئیں۔اس ایک سال کے دوران ملک میں کونسی ایسی تباہی آئی کہ مہنگائی آسمان کو چھونے لگی۔ یہ حقیقت ہے کہ سیلاب نےملک کے بڑے حصےکو متاثر کیا تھا جس کی وجہ سے بعض زرعی فصلوں کو نقصان پہنچا۔ پیاز کی قیمت تیس روپے سے بڑھ کر 250روپے تک پہنچ گئی تھی پچیس روپے کلو والا آلو بھی ایک سو بیس روپےکاہوگیا تھا۔ تاہم ملکی پیداوار مارکیٹ میں آنے کے بعد ان کی قیمتیں اپنی پرانی سطح پر آگئیں۔ اس سال قوم کو خوش خبری سنائی جارہی ہے کہ گندم کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے۔ اگر گندم اور آٹے کی سمگلنگ پر قابو پانے کے لئے مناسب اقدامات کئے گئے تو آٹے کی قیمت میں کم از کم پچاس فیصد کمی ہونی چاہئے اگر ایسا نہیں ہوتا تو عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ حکومت سمگلروں، قبضہ مافیا اور جرائم پیشہ عناصر کےنرغےمیں ہے اور سرکاری مشینری زنگ آلود ہوچکی ہے۔


شیئر کریں: