Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بزمِ درویش ۔ جیت ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

شیئر کریں:

بزمِ درویش ۔ جیت ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

میں چند دوستوں کے ہمراہ شہر کے لذیز مزیدار کھانوں کی شہرت رکھنے والے ہوٹل میں آیا ہوا تھا اپنی اپنی مرضی کے آرڈر دینے کے بعد اب ہم وقت گزاری کے لیے خوش گپیوں میں مصروف تھے چھیڑ چھاڑ کے ساتھ ساتھ ملکی حالات پر بھی تبصرہ جاری تھا رش زیادہ نہیں تھا لیکن پھر بھی کچھ لوگ کھانے کے غرض سے آئے ہوئے تھے میں دوستوں کے ساتھ گپ شپ کے ساتھ ساتھ اطراف کا بھی جائزہ لینے میں مصروف تھا اسی دوران میں نے محسوس کیا ہماری میز سے چند گزدور کھانے کی میز پر ایک بڑی عمر کا شخص بغور میری طرف دیکھ رہا تھا اُس کے چہرے کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ وہ مجھے جانتا ہے پہچاننے کی کو شش کر رہا تھا دو تین بار تو میں نے نظر انداز کر نے کی کوشش کی لیکن اِس دوران اُس نے میرے دوست کو روک کرجو واش روم جا رہا تھا کچھ پوچھا دوست میرے طرف دیکھ کر اُس کے سوال کا جواب دے کر آگے بڑھ گیا

 

اُس کی اِس حرکت نے مجھے الرٹ کر دیا کہ یقینا اُس نے میرے دوست سے میرے بارے میں پوچھا تھا اب جو میں نے اُس کی طرف دیکھا تو وہ مسکراتا ہوا میری طرف بڑھا اُس کو اپنی طرف آتا دیکھ کر میں بھی اپنی نشست پر کھڑا ہو گیا وہ میرے پاس آکر انتہائی مہذب شائستہ نرم لہجے میں بولا سر آپ پروفیسر عبداللہ بھٹی صاحب مری والے ہیں ناں اُس کا سوال سن کرمیں نے ہاں میں سر ہلایا اور کہا جناب آپ درست فرما رہے ہیں لیکن معذرت کے ساتھ میں نے آپ کو نہیں پہچانا تو وہ مسکرا کر بولا جناب میں آ پ سے پچیس سال بعد مل رہا ہوں گزرے پچیس سالوں میں شاید ہی کو ئی دن ایسا گزرا ہو جب میں نے آپ کو یاد نہ کیا ہو سر آپ میرے محسن اور نہایت قابل احترام ہیں اگر پچیس سال پہلے میں آپ سے نہ ملتا اور آپ کے مشورہ ہدایات پر عمل نہ کرتا تو یقینا میں خود کشی کر کے موت کی وادی میں گمنام ہو چکا ہو تا اُس نے عقیدت سے میرا ہاتھ پکڑا چوما پھر کہاسر آئیں میں آپ کو اپنی بیگم سے ملواتا ہوں اُس سے مل کر آپ کو یاد آجائے گی آپ ہم دونوں کو پہچان لیں گے

 

اِس دوران میں اپنی طاقتور یاداشت کے سمندر میں مسلسل غوطے لگا رہا تھا لیکن ماضی کے دھندلکے واضح نہیں ہو رہے تھے اِس دوران ہم چلتے ہوئے اُس کی میز پر آگئے آتا دیکھ کر اُس کی طویل قامت خوبصورت بیگم کھڑی ہو گئی بڑھتی عمر کے باوجود حسن کی دیوی اُس عورت پر مہربان تھی پچیس سال کراس کرنے کے باوجود مہذب دلکش سحر انگیز قد و قامت اورپرکشش شخصیت کی مالک تھی اُس کا قد چھ فٹ کے قریب ہو گا جب خاوند صاحب پانچ فٹ کے تھے دونوں کے قد کا فرق اور جسمانی خدو خال چہروں کے نقوش دیکھ کر ماضی کے بادل چھٹتے چلے گئے میرے سامنے مری کا دور میرا ڈرائینگ روم گھر لان یاد آگئے جہاں میری شرافت علی سے پہلی ملاقات پچیس سال پہلے ہوئی تھی میرے منہ سے نکلا شرافت علی یہ تم ہو وہ گرم جوشی سے مُجھ سے لپٹ گیا اور پرجوش لہجے میں بولا جی سر یہ میں ہی ہوں آپ ہی میرے محسن ہیں جن کی وجہ سے آج میں زندہ اور خوشگوار زندگی گزار رہا ہوں پھر اپنی خوبرو بیگم کی طرف اشارہ کر کے بولا دیکھ لیں میں اور میری بیگم شاندار ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں

 

میں نشست پر بیٹھ گیا اور غور سے دیکھا جو جوانی میں حسن کا شاہکار تھی ہی اب بڑھاپے کی دہلیز پر بھی رنگ و رعنائی خوبصورتی کا یونانی مجسمہ نظر آرہی تھی اُس کا دلکش سراپا حسن آج بھی شعلے کی طرح ناچ رہا تھا مجھے پچیس سال پہلے کا منظر یاد آگیا جب یہ دونوں میاں بیوی میرے پاس مری چند د ن رہنے کے لیے آئے تھے تو ہماری پور ے رہائشی کمپس میں بھونچال سا آگیا تھا کہ ایک بہت نارمل عام بلکہ بد صورت خاوند کے ساتھ جنت کی حور زمین پر اُتر آئی ہے دونوں کے خوبصورتی شخصیت میں جو فرق تھا وہ سب کو چبھ رہا تھا ہر کوئی حیران تھا کہ یہ حور پر ی اِس پانچ فٹ کے بونے کے ساتھ کیسے رہ رہی ہے یہ حیرت مجھے بھی تھی میرے بڑے بھائی جان کا مجھے ان دنوں فون آیا کہ یار میرے دوست کے بھائی کی شادی ہو ئی ہے جو اب ٹوٹنے کے قریب ہے بیوی بلکل بھی خاوند کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی لڑکی اپنی بیوی سے پیار نہیں بلکہ اٹوٹ عشق کر تا ہے اگر بیوی نے چھوڑا تو اگلے ہی لمحے خود کشی کر لے گا یااُسکی سانسیں جدائی کے غم سے بند ہو جائیں گی اُن دونوں کو آپ کے پاس بھیج رہا ہوں تمہاری پیری فقیری کا بھی امتحان ہے میرے دوست نے مجھے کہا ہے کہ سنا ہے تمہارا چھوٹا بھائی پیر بن گیا ہے اُس سے کہو میرے بھائی کا گھر اجڑنے سے بچا لے

 

لہذا شرافت علی اپنی حسین بیگم کے ساتھ میرے پاس مری آیا دونوں کے چہروں پر خزاں کے اداس رنگ بکھرے ہوئے تھے شرافت کو یہ خوف کہ یہ مجھے چھوڑ جائے گی جبکہ بیگم کو یہ خوف کہ کہاں پھنس گئی ہوں میری جان کیسے چھوٹے گی مجھے شرافت علی نے آتے ہی کہا جناب میری بیگم رات کو سو جائے گی تو میں آپ سے تفصیل سے بات کروں گا لہذا رات کو میں اور شرافت گھر سے تھوڑا دور ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے تھے کہ کہیں بیگم ہماری گفتگو نہ سن سکے شرافت علی نے سٹارٹ کیا سر آپ نے دیکھ ہی لیا ہے کہ میں پانچ فٹ کا سانولا بونا پتلا بد صورت انسان اور میری بیگم حوروں کی ملکہ ہمارا کوئی جوڑ نہیں ہے یہ میرے چچا کی بیٹی ہے ہمارا تعلق بڑے زمیندار خاندان سے ہے روپیہ پیسا اللہ نے خوب دے رکھا ہے میرے والد صاحب اور چچا کا مثالی پیار ہے ایک دوسرے کو دیکھ کر جیتے اپنے پیار کے رشتے کو مضبوط کرنے کے لیے ہم دونوں کی منگنی بچپن میں ہی کر دی جوان ہوئے تو صورت حال بہت عجیب دیکھی وہ حسن کا شاہکار میں کا لا کلوٹا بونا کمزور شخص والدین کے زور پر ہماری شادی ہو تو گئی میں تو بچپن سے بیگم کے عشق لازوال میں مبتلا تھا جبکہ بیگم منگنی کو سزا سمجھتی تھی

 

اُس نے بہت انکار کازور لگایا لیکن والدین کے زور پر شادی ہو گئی مجھے سہاگ رات ہی بیگم نے بتا دیا کہ میں نے اپنے والد کی وجہ سے شادی کی ہے تم مجھے ہاتھ بھی نہیں لگاؤ گے ورنہ میں خود کشی کرلوں گی جب تک والد صاحب زندہ ہیں میں تمہارے نکاح میں ہوں جیسے ہی وہ دنیا سے جائیں گے میں آزاد ہو جاؤں گی اگر مجھے تنگ کرو گے تو میں گھر سے بھاگ جاؤں گی لہذا میرے ساتھ شرافت کے ساتھ رہو سر میں تو ہر سانس اِس کے عشق میں بہتا تھا اُس کو نظروں کے سامنے رکھنے کے لیے وعدہ کیا کہ جیسے تم کہوں گی میں ویسے ہی رہوں گا شادی کے بعد بے شمار بابوں بزرگوں کے پاس لاکھوں روپے اجاڑ چکا ہوں لیکن بیگم راضی نہیں ہوتی وہ پتھر کی پتھر ہے

 

سر میری مدد کریں شرافت تین دن میرے پاس رہا میں اُس کی بیگم سے ملا آخر میں کچھ ذکر اذکار دے کر نصیحت کی کہ نان سٹاپ اِس کی تابعداری وفاداری کرناہوگی اِس کا ہاتھ بتاتا ہے اِس کو اولاد نہیں ہو گی یہ بانجھ ہے لہذا علاج کے بہانے باہر کے ملک چلے جاؤ شاید خدا کو تم پر رحم آجائے پھر شرافت دکھی دل کے ساتھ چلا گیا آج پچیس سال کے بعد میرے سامنے تھا میں نے بیگم کی طرف دیکھا تو بولی سر اِس بندے نے اپنی محبت سے مجھے جیت لیا میں تکبر غرور میں تھی باہر جا کر شدید بیمار ڈپریشن کا شکار ہو کر پاگل سی ہو گئی اِس نے میری خدمت کر کے میری ہر بات مان کر مجھ پاگل کو بانجھ کو قبول کر کے آخر کار جیت لیا مجھے پاگل پن سے نکالا میرے بانجھ پن کو قبول کیا کوئی اوربندہ ہو تا تو کب کا بانجھ پاگل کو چھوڑ جاتا اب یہ تو مجھ سے پیار کر تا ہے میں بھی اِس سے عشق کرتی ہوں سر محبت شکل سے نہیں اخلاق سے رویے سے ہوتی ہے میں حیرت سے محبت کے متوالوں کو دیکھ رہا تھا اور شرافت علی کو جس نے نان سٹاپ محبت سے آخر کار اپنی حور کو جیت لیا تھا عشق بھی کیا کیا کرشمے کر ا تا ہے۔


شیئر کریں: