Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کوئی ہم سا ہو تو سامنے آئے – محمد شریف شکیب

شیئر کریں:

کوئی ہم سا ہو تو سامنے آئے – محمد شریف شکیب

 

ہم من الحیث القوم ایشوز کو نان ایشو اور نان ایشوزکو ایشو بنانے میں کمال کی مہارت رکھتے ہیں۔ہر قوم کی زندگی میں بے شمار نشیب و فراز آتے ہیں۔دیگر اقوام اپنی ناکامیوں پر غور کرتے اور انہیں سدھارنے کی کوشش کرتی ہیںمگر ہم ایک چھوٹے سے واقعے کو قومی المیہ بنائےبغیر نہیں چھوڑتے۔اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ہم دیگر قوموں کی نسبت زیادہ قصہ گو اور ڈرامہ پسند لوگ ہیں پشاور کا قصہ خوانی بازار گھنٹوں بیٹھ قصے سننے اور سردھننے کی ہماری تاریخ کی زندہ نشانی ہے۔ٹی وی پر بھی کوئی ڈرامے دیکھتےہیں تو اپنی پسند کے کرداروں کے ساتھ جذباتی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے بھارتی ٹی وی چینل سٹار پلس کا ایک ڈرامہ “قم قم “پاکستان میں بڑا مقبول ہوا تھا۔ایک سین میں قم قم نامی لڑکی کو اغوا کرلیاگیاتو پورےپاکستان مین صف ماتم بچھ گئی۔خواتین دھاڑیں مار کر رونے لگیں اور ان کی بحفاظت بازیابی کی دعائین کرنے لگیں۔ یہاں تک کہ ایک گائوں میں قم قم کی واپسی کے لئے دعائیہ تقریب کا بھی انعقاد کیاگیا۔

 

ترکی کے ڈرامے ارطغرل کی ہیروئن حلیمہ کے پرستاروں کی تعداد کروڑوں میں نہیں تو لاکھوں میں ضرور ہے۔ آدھے ناظرین حلیمہ کے حسن اور باقی آدھے ان کی پاکبازی کے عاشق تھے۔پھر یوں ہوا کہ ان کے ساحل سمندر پر سن باتھ لینے کی تصاویر اور وڈیوز شوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔اور پورے پاکستان میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی جو لوگ انہیں پاک دامنی کی قابل تقلید مثال قرار دیتے تھے۔انہوں نے یہ دکھ اس قدر دل پہ لے لیا کہ دو چار دنوں تک بول چال اور کھانا پینا بھی بندکردیا۔ہماری قوم اپنی بات کی اتنی پکی ہے کہ دنیا ادھر سے ادھر بھی ہوجائے تو اپنے “وصولی” موقف سے ایک انچ بھی ہٹنے کو تیار نہیں ہوتی۔ہمارے کسی لیڈر نے ایک بار کہا تھا کہ جب تک اسرائیل مسجد اقصی پر اپنا ناجائز قبضہ نہیں چھوڑتا اور آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کرتا۔ ہم اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قیمت پر سفارتی تعلقات قائم نہین کریں گے۔ آج سعودی عرب سمیت بیشتر عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلئے ہین اور اسے صیہونی ریاست بھی تسلیم کرلیا ہے مگر ہم نے اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی قسم کھارکھی ہے۔خواہ اس کانتیجہ ہمارے خلاف کچھ بھی نکلے۔

 

ہم پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ والا کردار ہر دور میں ادا کرتے رہے ہیں۔ جب بھی کبھی پاکستان اوربھارت کے درمیان تعلقات میں بہتری کے امکانات پیداہوتے ہیں ہماری عزت،سالمیت اورغیرت جاگ جاتی ہے اورامن کی کوششیں کرنے والوں کی حب الوطنی بھی مشکوک ہوجاتی ہے۔ہمارا اصولی موقف ہے کہ بھارت سے تعلقات میں اعتدال کی بات ہمارے لئے باعثِ رنج و ملال ہے۔پاکستان میں خاندان کی منصوبہ بندی کرنا اور بچوں کو پولیو کےقطرے پلانا ہم اپنی تاریخ، روایات اوراقدار کے منافی سمجھتےہیں۔اور اگر کوئی اس پردلیل دینے یااصرار کرنے کی کوشش کرے تو ہم مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔شتر بے مہار کی طرح بڑھتی ہوئی آبادی کے خلاف بات کرنا انتہائی ناپسندیدہ عمل سمجھا جاتا ہے۔درجن بھر بچوں کی پیدائش اپنافریضہ سمجھ اور ان کی ضروریات پوری کرنے کاذمہ دار حکومت کو ٹھہراتے ہیں۔ترقی پذیر معاشروں میں کرپشن کرنا ہر صاحب اختیارو اقتدار کا حق سمجھا جاتا ہے۔سیاست دانوں سے لے کر افسر شاہی اور سرکاری ملازمین تک سبھی کرپشن کی کسی نہ کسی صنف سے روحانی لگاؤ رکھتے ہیں۔

 

لیکن اگر کرپشن کے موضوع پر اگر بات کرنے کی نوبت آئے۔ تو پوری قوم کرپشن کے خلاف سراپا احتجاج ہوتی ہے اور اسے گناہ کبیرہ سمجھتی ہے معاشرے میں ہر کوئی کرپشن کا رونا روتا نظر آتا ہے۔ہمارے ہاں تین قسم کے سرٹیفکیٹ آسانی سےدستیاب ہیں۔ہم خود کو بہترین مسلمان،محب وطن اور قانون پسند گردانتے ہیں باقی سب کو مشرک، غدار اور باغی ہونے کااز خود سرٹیفیکیٹ جاری کرتے ہیں۔ہمارے ہاں زمینی حقائق کو تسلیم کرنا قومی المیہ سمجھاجاتا ہے۔ہم واقعی دنیا میں سب سے الگ ہیں۔ہم جیسا کوئی بننے کی کوشش بھی کرے تونہیں بن سکتا۔ہم محبت بھی ٹوٹ کر ہی کرتے ہیں اور اس میں ناکامی پر ٹوٹ جاتے ہیں اور نفرت کریں تو اس کی شکل دیکھنا اور نام سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں حقیقی جمہوریت نہیں آسکتا۔


شیئر کریں: