Chitral Times

Dec 6, 2023

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

جنگل کا قانون – محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

جنگل کا قانون – محمد شریف شکیب

کسی جنگل میں شیر اور بکری ساتھ رہتے تھے۔انہیں شاید کسی زیادہ طاقتور طبقے کی طرف سے ساتھ رہنے کی ہدایت کی گئی ہوگی اس بارے میں ہمارے پاس ٹھوس شواہد نہیں ہیں اور ایسے کام کرنے والے کوئی ثبوت نہیں چھوڑتے۔اس واقعے کا تذکرہ کرنے کا ہرگز مطلب ہمارے ملک کے نظام کی طرف اشارہ کرنا نہیں ہے اگر جنگل کے قانون کی کہانی میں وطن عزیز کے حالات سے مماثلت نکل آئے تو یہ محض اتفاق ہوگا۔بات شیر اور بکری کی ہو رہی تھی۔ایک دن دونوں چرتے چراتے پانی پینے کے لئے ندی پہنچ گئے۔شیر ندی کے بالائی حصے میں پانی پینے لگا۔ بیچاری بکری شیر کا آلودہ کیا ہوا پانی پینے لگی۔شیر کی نیت خراب ہوگئی اس نے غصے کی بکری کی طرف دیکھا اور کہا کہ تم میرے پانی کو گدلا کر رہی ہو۔بکری نے کہا کہ میں نیچے پانی پی رہی ہوں۔آپ اوپر ہیں پانی آپ کی طرف سے گدلا ہو کر نیچے آرہا ہے۔

 

شیر کو غصہ آیا۔کہنے لگا۔تمہاری یہ ہمت۔ میرے سامنے زبان چلاتی ہو۔اس نے نافرمانی کے جرم میں بکری پر حملہ کر دیا اور اسے کھا گیا۔کچھ لوگوں کو شکایت ہے کہ ہمارے ملک میں بھی جنگل کا قانون رائج ہے زور آور اپنی مرضی چلاتا ہے۔مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ارباب اختیار نے حال ہی گیس میٹر کا کرایہ چالیس روپے ماہانہ سے بڑھا کر 500 روپے ماہانہ کر دیا ہے اور مارچ کے گیس بلوں میں وصولی بھی شروع کر دی ہے۔ بجلی کے میٹر کی طرح گیس کا میٹر بھی صارف کی ذاتی ملکیت ہے جو گیس کنکشن لیتے وقت اس نے قیمت ادا کرکے لگوائی ہے۔یہ عجیب قانون ہے کہ صارف کی اپنی ذاتی چیز سے ہر مہینے کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔چالیس روپے ماہوار کرایہ مقرر کرکے صارفین سے ماہانہ اربوں روپے مفت میں بٹورے جا رہے تھے۔جب لوگ خاموشی سے یہ زیادتی برداشت کرتے رہے تو ظالموں کو مزید شہہ مل گئی اور انہوں نے اس غیر قانونی کرائے میں دوگنا، تین گنا نہیں بلکہ 800 فیصد اضافہ کر دیا۔کیونکہ اداروں کو معلوم تھا کہ بجلی کا بل دو ماہ تک ادا نہ کر سکنے پر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے اہلکار میٹر اتار کر لے جاتے ہیں۔

 

میٹر دوبارہ لگوانے کے لئے دوگنا بل کے علاوہ صارف کو ہزاروں روپے جرمانہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔حالانکہ ملک کے مروجہ قانون میں کسی کا میٹر اتارنا جرم ہے اور اس کے خلاف ایف آئی آر درج کی جاسکتی ہے۔ایک سے زائد میٹر اتارنے پر اس کی نوکری بھی جا سکتی ہے لیکن بے چارے عوام کو قانون کے تحت اپنے حقوق کا علم ہی نہیں جس کا بااثر ادارے مسلسل ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔اسی پر بس نہیں کیا گیا۔اب گیس اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے عوام کو لوٹنے کا نیا طریقہ سلیب ریٹ متعارف کروا دیاہے۔جس کے تحت سلیب (1)کا بل 272 روپے،سلیب (2) 1257 روپے، سلیب (3)4570 روپےسلیب (4)9125 روپے،سلیب (5) 18227 روپے،سلیب (6) 18290روپے مقرر کیا گیا ہے پہلے سلیب ریٹ اور دوسرے میں فرق 1000 روپے کا ہے

 

دوسرے سے تیسرے میں فرق 3300 روپے کا ہے۔تیسرے سلیب اور چوتھے کا فرق 9000 روپے کا ہے۔آپ گاڑی میں پٹرول ڈلواتے ہیں تو کبھی ایسے نہیں ہوتا کہ ایک لیٹر100روپے، دو لیٹر 1100 روپےاورتین لیٹر 3300 روپے قیمت وصول کی جائے۔صرف ایک دن ریڈنگ لیٹ لینے سے بل 272 سے 1257 ہو سکتا ہے.واپڈا والے 300 یونٹ کا بل 3300 بمعہ ٹیکس اور 301 یونٹ کا 4400 بمعہ ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ایک یونٹ زیادہ صرف کرنے سے 1100 روپے کا فرق ظلم اور زیادتی ہے۔حکمرانوں سے انصاف کی امید رکھنا عبث ہے کیونکہ ان کا تعلق معاشرے کے جس طبقے سے ہے انہیں پسے ہوئے طبقات کے مسائل اور مشکلات کا ادراک ہی نہیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان، کنزیومر کورٹس، وفاقی شرعی عدالت اور چاروں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے ہی عوام آس لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ اس ظلم ناروا کا از خود نوٹس ضرور لیں گے۔


شیئر کریں: