Chitral Times

Apr 25, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

غذائی بحران اورکرپشن کی اجازت – میری بات:روہیل اکبر

Posted on
شیئر کریں:

غذائی بحران اورکرپشن کی اجازت – میری بات:روہیل اکبر

پاکستان میں سیاسی دنگل تو چل ہی رہا ہے ساتھ میں صدر اور وزیر اعظم کے خط بھی دلچسپ صورتحال اختیار کرتے جارہے ہیں اور ان خطوط کی روشنی میں مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے سرکاری ملازمین بھی دبی دبی سرگوشیوں سے کھلے خط کی طرف آن پہنچے ہیں صدر اور وزیر اعظم کے الزامات سے بھر پور خط کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ملازم نے وزیراعظم شہباز شریف کوحقیقت پر مبنی خط لکھ کر کرپشن کرنیکی اجازت مانگ لی ملازم نے خط میں لکھا کہ مہنگائی کے باعث گھریلو اخراجات تنخواہ سے پورے نہیں ہو رہے گھریلو اخراجات ایک لاکھ 10ہزار 500روپے ہیں اور تنخواہ کم ہے اگر حکومت تنخواہ نہیں بڑھاتی توپھر ہمیں کرپشن کرنیکی اجازت دی جائے مہنگائی اوراخراجات بڑھنے کے باعث مستقبل کیلئے کوئی جمع پونجی نہیں ہے جبکہ ہمارے مقابلے میں نیب، ایف آئی اے، پی ایم آفس اور دیگر اداروں کے ملازمین کی تنخواہ زیادہ ہے اور اب کم تنخواہ اور مہنگائی کے باعث گھریلو اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں رہا۔ایف بی آر کے ملازم کی طرف سے لکھا گیا یہ خط سچ مان لیاجائے تو اس میں کوئی برائی بھی نہیں کیونکہ صرف ایک ہفتے میں مہنگائی کی شرح میں 1.80فیصد کا بڑا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد ملک میں مہنگائی کی مجموعی شرح 46.65فیصد ہو گئی اور اس صورتحال میں سرکاری ملازمین کی چیخیں نکل گئی ہے تو عام آدمی کا کیا حشر ہوتا ہوگا بلکہ عام آدمی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ حکومت کی طرف سے مفت آٹا پانے کی تگ و دو میں ملک کے مختلف شہروں میں اب تک 6 جانیں بھی جاچکی ہیں اورسابق وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کے شہر تونسہ میں اسسٹنٹ کمشنر کو اپنی واسکٹ کی قربانی دیکر بھاگنا پڑا ورنہ ہجوم نے اسکے کپڑے بھی اتار دینے تھے

 

اس تمام صورتحال کے باجودضلعی انتظامیہ آٹے کی پرسکون تقسیم کا طریقہ کار نہ بناسکی جن شہروں میں آٹے کے حصول میں لوگ جان سے گئے ان میں بھکر، مظفر گڑھ، ملتان، فیصل آباد، کوٹ ادو اورچارسدہ شامل ہیں اگر ضلعی حکومت نے آٹے کی مفت تقسیم کا آسان اور پرسکون طریقہ اختیار نہ کیا تو پھر آنے والے دنوں میں حالات کسی کے بھی قابو میں نہیں رہیں گے تونسہ میں مفت آٹے کے حصول میں آنے والے شہریوں نے اپنے پر تشدد رویے سے اسسٹنٹ کمشنرکو بھاگنے پراس لیے مجبور کیا کہ انہیں کئی گھنٹے لائن میں لگنے کے باوجود آٹا نہیں ملا بلاشبہ حکومت کا آٹے کی مفت فراہمی کا فیصلہ بہت ہی اعلی ہے اور اس سلسلہ میں پنجاب کا محکمہ خوراک بھی اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے سیکریٹری فوڈ زمان وٹو اپنی ٹیم کے ہمراہ ہر شہر میں آٹا تو فراہم کررہا ہے لیکن شہروں کی انتظامیہ کوئی ایسا طریقہ وضع کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکی کہ عوام کو بغیر دھینگا مشتی کے آٹے کا ایک تھیلہ مل سکے امید ہے نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی اس طرف بھی توجہ دینگے کیونکہ عوام کی جان و مال کا تحفظ انکی پہلی ترجیح ہے اسکے ساتھ ساتھ حکومت کو مستقبل میں گندم سمیت مختلف اجناس کو ذخیرہ کرنے کے لیے بھی جدید ماڈلز کو اپنانا ہوگا اگر ایسا نہ کیا گیا تو لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے کی گندم چوہے بھی ہضم کرسکتے ہیں

 

سندھ میں تو ایسا ہو چکا ہے اور ہمیں گندم کی کمی کا سامنا بھی ہے ابھی پنجاب میں ہونے والی حالیہ بارشوں سے گندم کی فصل کوشدید نقصان پہنچا ہے اس لیے ہمیں آنے والے برسوں میں پاکستان کوخوراک کے حوالہ سے مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی، قدرتی آفات اور معاشی بدحالی نے ملک کے غذائی نظام کو بری طرح متاثر کیا ہے اناج ذخیرہ کرنے کی سہولیات کو بہتر بنانے سے ان میں سے کچھ چیلنجز کو کم کرنے اورغذائی نظام کو مضبوط بنانے میں مدد مل سکتی ہے کیونکہ اناج ذخیرہ کرنے کی سہولیات خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کر نے کے ساتھ ساتھ فصل کے بعد ہونے والے نقصانات کو کم کرنے، اناج کے معیار کو برقرار رکھنے اور سال بھر خوراک کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانے میں مدد فراہم کرتی ہے لیکن پاکستان میں اناج ذخیرہ کرنے کی موجودہ سہولیات ناکافی اور پرانی ہیں جس کی وجہ سے پیداوار کے بعد اناج کو نقصان پہنچتا ہے جس سے خوراک کی دستیابی کم اور قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ اناج ذخیرہ کرنے کی جدید سہولتوں سے استفادہ کرے تاکہ کیڑوں، چوہوں اور نمی کی وجہ سے اناج خراب ہونے سے بچ سکے.

 

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک وزراعت کے مطابق پاکستان خوراک کے نقصان کے حوالے سے دنیا بھر میں 63ویں نمبر پر ہے باقی اجناس کو تو چھوڑیں آپ صرف چنے کی فصل کو دیکھیں جسکی کاشت ان علاقوں میں ہوتی ہے جہاں زمین زرخیز ہے نہ پانی کی دستیابی ہے بارشوں سے تیار ہونے والی اس فصل کی پیداوارکو سنبھالنے کے لیے ہمارے کسانوں کے پاس وسائل نام کی کوئی چیز نہیں اگر ہمارے ہاں چنے کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے توکسان اسے ذخیرہ کرنے سے قاصر ہیں اور اسے مقامی تاجروں کوکم قیمت میں بیچنے پر مجبور ہیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آج تک کسی حکومت نے توجہ نہیں دی حالانکہ محکمہ زراعت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کو اپنی فصل بڑے پیمانے پر ذخیرہ کرنے کی سہولتیں استعمال کرنے کے لیے آسان طریقے بتائیں تاکہ غریب کسان ذخیرہ کرنے کی بہتر سہولیات کے ساتھ اپنے اناج کو زیادہ دیر تک ذخیرہ کرسکیں اور وہ اپنی مصنوعات کو بہتر قیمت پر فروخت کریں حکومت اگر اس طرف توجہ دے تو کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان غذائی عدم تحفظ کے مسئلے سے نمٹ سکتا ہے جبکہ اناج ذخیرہ کرنے کی سہولیات میں سرمایہ کاری سے پاکستان کی فوڈ ویلیو چین کو مضبوط بنانے میں بھی مدد مل سکتی ہے اور اس سلسلہ میں اناج ذخیرہ کرنے کی سہولیات کو بہتر بنانے میں نجی شعبہ بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے حکومت نجی کمپنیوں کو ٹیکس میں چھوٹ یا دیگر مالی مراعات دے کر اسٹوریج کی نئی سہولیات کی تعمیر یا موجودہ سسٹم کو اپ گریڈ کرنے میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دے سکتی ہے امید ہے متعلقہ محکمے اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے اس پر توجہ دینگے تاکہ ملک میں گندم سمیت دیگر اجناس کا جو بحران رہتا ہے اس پر موثر انداز سے قابو پایا جاسکے گا رہی بات صدر اور وزیر اعظم کے خط کی وہ اتنا سنجیدہ نہیں جتنا کرپشن کے حوالہ سے اجازت لینے والا خط ہے اسے بھی زرعی ٹیکنالوجی کی طرح سنجیدہ لیا جائے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
72942