Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان  – ” زندگی جلترنگ ، لہو رنگ“ – محمد جاوید حیات

شیئر کریں:

دھڑکنوں کی زبان  – ” زندگی جلترنگ ، لہو رنگ“ – محمد جاوید حیات

ابھی ابھی اطلاع ملی تھی کہ یوٹیلیٹی سٹور پہ آٹاآرہاہے اور کسی منچلے نے ” حکومتی پیکچ “ کی بھی بات کی تھی ۔بابا کی افسردہ آنکھوں میں چمک اترگئی تھی دل مچلنے لگا تھا خواب دیکھا تھا کہ روٹی توے پہ ڈالی جاۓ گئی ان کی عورت بڑے احتیاط سے بسم اللہ پڑھتے ہوۓ روٹی توے پہ ڈالے گی روٹی پکے گی اس کے تین بچے بڑے اشتیاق سے پکتی ہوٸی روٹی پہ نظریں جماٸیں گے ان کو دنیا و ما فیہا کی خبر نہ ہوگی اس لیے کہ اس کا چولہا تین دن پہلے بجھ گیا تھا ۔صبح تڑکے بابا نے اپنی بوڑھی ہوتی ہوٸی بیوی سے کہا تھا کہ دعا کریں آٹا مل جاۓ نماز پڑھتے ہی یو ٹیلیٹی سٹور کی طرف گیا تھا پیسے مٹھی ہی میں تھماۓ ہوۓ تھے پیچھے سے اس کی بیوی کی نخیف سی آواز اس کو سناٸی دی تھی کہ اگر پیسے بچ گۓ تو گھی بھی لانا بابا نے کوٸی جواب نہیں دیا تھا ۔

بابا پہلا شخص تھا کہ یوٹیلیٹی سٹور پہنچا تھا وہ سٹور کے بڑے دروازے کے ساتھ دیوار سے ٹیک لگا کے بیٹھ گیا ۔پہلا نمبر اس کا ہوگا آہستہ آہستہ لوگ آتے گۓ اور انتظار کے بعد یوٹیلیٹی سٹور کا ذمہ دار آتا دیکھاٸی دیا سب اشتیاق سے اسے دیکھنے لگے اس نےآتے ہی ڈانڈ جھاڑ دی کہ یوٹیلیٹی کے گیٹ کے ساتھ مت بیٹھو جگہ خالی کر دو بابا کو بھنمبوڑ کر اٹھایا گیا بابا کا نمبر قطار میں بہت پیچھے آگیا ۔سودا سلف شروع ہوگیا لوگ آٹا، دال اورگھی اٹھا اٹھا کر جانے لگے ۔
نوکر وزیر اعظم ہاوس کے باورچی خانے میں کھانے پینے کے سامان سجا کر تیار کھڑا ہے باورچی مستعد ہیں۔ وزیر اعظم ابھی جاگا نہیں ہے ۔بابا کے سکول جاتے دو بچوں کو ان کی ماں تسلی دے کر سکول بھیج دیتی ہے کہ آپ کے ابو یوٹیلیٹی سٹور سے آٹا لے کے آۓ گا ۔

وزیر اعظم نیند سے انگڑائی لے کے جاگا ہے ایک ادھ کروٹ بدلا ہے ۔باہر پرندوں کے شور نے اس کی نیند توڑا ہے ۔اٹھ کے غسل خانے جاتا ہے منہ ہاتھ دھو کے باہر آتا ہے وزیر اعظم ہاوس کے باورچی خانے میں ہل چل شروع ہوجاتی ہے وہ ڈاٸنگ ہال میں ناشتے کی میز پہ بیٹھتا ہے سامنے قومی اخبار پڑا ہے ۔جلی حروف میں سرخی لگی ہے ۔۔” یوٹیلیٹی سٹورز میں وافر مقدار میں کنٹرول ریٹ پر آٹا دستیاب ہے حکومت غریبوں کوسبسیڈی دے رہی ہے“

دوسری سرخی ہے ” حکومت کا اولین مقصد ملک میں خوشحالی لانا ہے “ ناشتہ آتا ہے انواع و اقسام کی اللہ کی نعمتیں ہیں وزیر اعظم رعونت سے ناشتہ کرتا ہے انگلیاں صاف کرکے ٹیشو پیپر میز پہ پھینک دیتا ہے ۔

یوٹیلیٹی سٹور میں بابا کا نمبر نہیں آتا دن کے بارہ بجنے کو ہیں پندرہ سو روپے کے کاغذی نوٹ اس کے ہاتھ میں نمی پکڑ رہے ہیں ۔پسینے کے قطرے اس کی سفید داڑھی کے بالوں سے ٹپکنے لگے ہیں اس کے پراٸمیری کے استاد کی باتیں اس کو یاد آتی ہیں ۔ہم نے انگریزوں اور ہندوٶں سے آزادی حاصل کی ۔۔۔پاکستان ہمارے لیے اللہ کا انعام ہے ۔

یوٹیلیٹی سٹور کا ذمہ دار کھانے کا وقفہ کرتا ہے ساری قطار اپنی جگہ دھوپ میں بیٹھتی ہے ۔دو بجے سٹور واپس کھلتا ہے بابا کی باری آنے والی ہے بابا کاونٹر پہ پہنچتا ہے یکایک سٹور کیپر کا موباٸل بجتا ہے وہ موباٸل کان سے لگاتا ہے صاحب کہتا ہے۔۔۔ پھر کہتا ہے صاحب 20 کلو کے آٹے کا نیا پیکچ ریٹ 2 ہزار روپیہ ہے ۔بابا کو جھٹکا لگتا ہے آرام سے اپنی باری چھوڑ کر قطار سے باہر نکلتا ہے ۔اس کے پیچھے جو بندہ کھڑا ہے اس سے پوچھتا ہے ۔۔بابا کیا ہوا ؟۔۔بابا سرگوشی میں کہتا ہے ۔۔” بیٹا !پیسے کم پڑے “

لیکن یہ ناہنجار اونچی آواز میں بابا کا راز کھول دیتا ہے ۔۔بابا کے پاس پیسے نہیں ہیں ۔۔۔دریاۓ فرات کے کنارے کتا بھوکا مرتا ہے ۔فلاحی ریاست کا جنازہ اٹھتا ہے ۔باباۓ قوم کا سچ جھوٹ ثابت ہوتا ہے ۔حکمرانوں کا ”قبلہ “ امریکہ کا صدر واٸٹ ہاوس میں اپنے دو کمروں پر مشتمل دفتر میں اپنے مشیر سے پوچھتا ہے ۔۔۔What about Pakistan؟۔۔مشیر کہتا ہے ۔۔۔قرض کا بوجھ ۔۔۔عوام بے حال ۔۔۔معاشی بدحالی ۔۔۔حکمران اپنے محلوں میں حال مست۔۔۔۔۔یعنی آسان لفظوں میں ۔۔۔۔”زندگی جلترنگ ۔۔۔۔۔لہو رنگ “۔۔۔۔قہقہے بلند ہوتے ہیں


شیئر کریں: