Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دوائے دل – تفسیر لاہوری، حضرت مولانا سمیع الحق شہیدکا عظیم علمی کارنامہ –  تحریر: مولانا محمد شفیع چترالی

شیئر کریں:

دوائے دل – تفسیر لاہوری، حضرت مولانا سمیع الحق شہیدکا عظیم علمی کارنامہ –  تحریر: مولانا محمد شفیع چترالی

”دراصل اصل انسان وہی شخص ہے جس میں وحشت اور نفرت نہ ہو بلکہ اس میں الفت اور شفقت پائی جائے۔ انسان کا مفہوم اور مطلب سمجھنے میں عام طور پر غلطی کی جاتی ہے عام طور پر انسان کا مفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ وہ پاؤں، دو ہاتھ، دو آنکھیں، بتیس دانت، دو کان، ایک زبان اور سیدھا قد ہونے کا نام انسان ہے۔ حالانکہ یہ چیز حقیقتاً انسان نہیں ہے البتہ انسان کا لفافہ ضرور ہے جس طرح کہ خط لفافہ کو کہا جاتا ہے حالانکہ لفافہ خط نہیں ہوسکتا بلکہ لفافہ کے اندر خط ملفوف ہوتا ہے اگر لفافہ کے اندر خط نہ ہوتو لفافہ بیکار اور فضول ہے اسی طرح اگر اس انسانی لفافہ کے اندر انسانیت پائی جائے تو پھر یہ لفافہ قابل قدر ہے اور اگر اندر انسانیت کا جوہر نہیں ہے تو پھر یہ لفافہ ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے قابل ہے اور وہ شکل انسانی جس میں انسانیت کا جوہر نہ ہو، اس کی ردی کی ٹوکری دوزخ ہے۔“

 

یہ اقتباس میرے محسن و مخدوم حضرت مولانا سمیع الحق شہید رحمہ اللہ کی مرتب کردہ”تفسیر لاہوری“ کا ہے جو ابھی چند روز پہلے دس جلدوں میں زیور طبع سے آراستہ ہوکرمنصہ شہود میں آچکی ہے۔میری تو آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں جب بردار مکرم مولانا راشد الحق سمیع کی خصوصی کرم نوازی سے مجھے تفسیر لاہوری کے سیٹ کا گراں قدر تحفہ موصول ہوا اور حضرت شہیدؒ سے آخری ملاقات کا وہ منظر ذہن کی اسکرین پر جھلملانے لگا جب حضرت نے مجھے اس تفسیر پر اپنے کام کا مسودہ دکھایا تھا اور فرمایا تھا کہ اب زندگی میں بس یہی ایک آرزو رہ گئی ہے کہ قرآن کریم کی خدمت کا یہ کام کسی طرح پایہئ تکمیل تک پہنچ جائے۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ حضرت نے اتنی پیرانہ سالی،ضعف اور بیماری اور ہنگامہ خیز مصروفیات کے باوجود مسودے پر نہایت باریک بینی سے ایڈیٹنگ کی ہوئی تھی اور کمپوزنگ کی غلطیوں کے ساتھ ساتھ کامے اور شوشے کی فروگزاشتوں تک کی بھی نشاندہی کی ہوئی تھی۔

 

مجھے بتایا گیا کہ شہادت سے کچھ عرصہ پہلے جب مولانا شہید کے دل کا آپریشن ہوا تھا تو بے ہوشی میں جانے سے پہلے ان کی آخری سرگرمی تفسیر لاہوری کی ایڈیٹنگ تھی اور کئی گھنٹے کے آپریشن کے بعد جب ان کو ہوش آیا تو بھی انہوں نے پہلا کام اسی مسودے پر نظر ثانی کا کیا۔ 2نومبر 2018ء کو جب حضرت کی شہادت کا سانحہ پیش آیا تو آخری تین پاروں کا کام باقی رہ گیا تھا جسے حضرت کے قابل فخر نسبی و روحانی فرزندوں نے حضرت ہی کے اسلوب میں مکمل کیا اور حضرت شہید کے ذوق کے مطابق نہایت عمدہ ترتیب اور بہترین طباعت کے ساتھ تشنگان علوم قرآن کے لیے چشمہ شیریں کی صورت پیش کردیا ہے۔فجزاہم اللہ احسن الجزا۔

 

اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ تفسیر لاہوری کے ذریعے حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ نے اپنی علمی زندگی کے دو سِروں کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ باہم ملا دیا ہے۔1958ء میں رسمی تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا شہید نے اپنے والد گرامی حضرت مولانا عبد الحق ؒ کے مشورے پر لاہور جاکر ولی کامل شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوریؒ کے دورہئ تفسیر میں شرکت کی اور اپنے خاص ذوق کے مطابق حضرت کے درسی افادات کو قلمبند کیا تھا اوراس کے تقریباً ساٹھ سال بعد انہوں نے ان افادات کومزید تحقیق و تبویب کے ساتھ مرتب کرکے شائع کرنے کا بیڑاا ٹھایا۔ جس وقت مولانا شہید نے مولانا لاہوری ؒ کے ہاں دورہئ تفسیر پڑھنے کے لیے رخت سفر باندھا،یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر میں مولانا احمد علی لاہور ی کے حلقہ درس کا اس حد تک شہرہ تھا کہ بڑے بڑے علماء اور مدرسین بھی دور دراز سے اس درس میں شرکت کے لیے حاضر ہوتے تھے۔یہاں تک کہ دار العلوم دیوبند کے مشایخ بھی مکمل ترجمہ و تفسیر قرآن اور جلالین اور بیضاوی جیسی تفاسیر پڑھ کر سند فراغت حاصل کرنے والے فضلا ء کو مشورہ دیا کرتے تھے کہ قرآن کریم کی لفظی اور فنی ابحاث کے ساتھ ساتھ اس کے اسرار و موز اور دین و شریعت کے مزاج اور مصلحتوں کو جاننے میں مزید پختگی اور ساتھ میں باطنی تزکیہ اورروحانی ترقی چاہتے ہو تو مولانا لاہوری کی صحبت میں جاکر استفادہ کرو۔مولانا احمد علی لاہوری ؒبرصغیر کے عظیم انقلابی لیڈر اور فلسفہ شاہ ولی اللہ کے شارح مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے خاص شاگرد تھے اور انہی سے آپ نے شاہ ولی اللہ ؒ کے قرآنی علوم و معارف کی تحصیل کی تھی تاہم آپ نے مولانا سندھیؒ کے ان چند تفردات کی طرف اپنا انتساب نہیں کیا جن پر جمہور علماء نے نقد کیا ہے۔مولانا احمد علی لاہوری کا تفسیری ذوق امام شاہ ولی اللہ سے خوشہ چینی میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی ؒ سے زیادہ ملتا ہے اور قرآن کریم کی ہر آیت سے دورحاضر کے مسائل کے حل کے لیے روشنی لینا ان کا خاص ذوق معلوم ہوتا ہے۔ اس تفسیر میں سماج میں معاشرتی،معاشی،سیاسی اورفکری انقلاب برپا کرنے کے قرآن کریم کے آفاقی پیغام کومختلف پیرایوں میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔مذکورۃ الصدر اقتباس میں اس کی ایک جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔

مولانا احمد علی لاہوری کے تفسیری افادات کو ان کے بہت سے شاگردوں نے کلی یا جزوی طور پر محفوظ کیا۔مولانا سمیع الحق شہید نے بھی حضرت کے پورے درس کو لکھا اوراپنے پاس محفوظ رکھا۔ پھر حضرت نے چند برس قبل اس گراں قیمت سرمایے کو امت تک پہنچانے کے لیے اپنے قلم کو تیشہئ فرہاد بنا دیا اور اپنے پاس موجود مسودے کے علاوہ دیگر حضرات کے دستیاب مسودوں کو بھی سامنے رکھا،اسی پر بس نہیں بلکہ حضرت لاہوری کی دیگر مطبوعہ و غیر مطبوعہ تقریروں،تحریروں اور رسائل سے بھی تفسیری نکات کو بڑی عرق ریزی کے ساتھ جمع کیا اور تفسیر میں شامل کردیا۔پھر حضرت لاہوری کے ذوق کے مطابق قرآنی آیات کے متنوع موضوعات کو الگ الگ عنوانات دے کر مستقل مضمون کی صورت دی دے اور قرآنی علوم و معارف کا ایک ایسا حسین گلدستہ تیار کیا جس کے خوشبو ان شاء اللہ قیامت تک چمنستان علم کو مہکاتی رہے گی۔

حضرت کے اس عظیم علمی ورثے کوانتہائی سلیقے اور متانت کے ساتھ مرتب کرکے اہل علم کی خدمت میں پیش کرنے پر موتمر المصنفین اکوڑہ خٹک کے جملہ احباب بالخصوص مولانا راشد الحق سمیع، مولانا عبد القیوم حقانی، مولانا محمدفہد حقانی اور برادرم بابر حنیف خصوصی تبریک کے مستحق ہیں۔اللہ تعالیٰ قبولیت بخشتے اور اس تفسیر کو ہمارے حضرت مولانا سمیع الحق شہید کے لیے رفع درجات کا ذریعہ بنادے۔


شیئر کریں: