Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خواتین کا عالمی دن، تحریک یا تربیت – حیات طیبہ

شیئر کریں:

خواتین کا عالمی دن، تحریک یا تربیت – حیات طیبہ

یہ صدیوں کا سفر ہے، جس میں حق کے لئے جانوں کے نذرانے تک پیش کئے گئے،استحصالی قوتوں نے حق تک رسائی کسی کو نہیں دی۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ہم خوشی سے، سب کچھ سمجھتے ہوئے یاپھر انجانے میں جو مناسب لگے اس کا ساتھ دیتے آئے ہیں۔ لا حاصل نتائج نے بھی ہماری ہمت کو کمزور نہیں ہونے دیا۔ صدیوں کی کوشش کے بعد حاصل ضرب یہی ہے کہ ہم خواتین کے لئے ایک دن مخصوص کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ حقوق حاصل کرنا یا حقوق کے لئے جدوجہد کے راستوں میں محو سفر رہتے ہوئے منزل کا کوئی نشان اب بھی ہمارے پاس نہیں ہے۔ مگر دعوی بہت بڑا ہے۔
تحریکیں ہمیشہ حقوق کے لئے برپا کی جاتی ہیں۔ انسانی جدوجہد ہمیشہ بار آور اس وقت ثابت ہوئے جب رہبروں نے راستوں کا تعین ٹھیک سے کیا۔ جیسے ہر تحریک کا ایک سمت ہوتا ہے لیڈر اپنے فالورز کے ساتھ اس سمت میں تحریک کے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے سفر جاری رکھتا ہے۔ تمام تر توجہ منزل پر ہوتی ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ کسی تحریک کی کامیابی کے لئے کوئی خاص ٹائم فریم کا تعین مشکل ہے اور کوئی ٹائم فریم ضروری بھی نہیں مگر منزل کا تعین تحریک کے آغاز سے قبل ہی واضح ہوا کرتا ہے تاکہ جدوجہد کے ساتھیوں کوپتہ ہو کہ وہ کس لئے جدوجہد کررہے ہیں اور منزل پر ان کو کیا ملنے والا ہے۔
مذکورہ تناظر میں ہم حقوق نسواں کی تحریک کا جائزہ لیں تو! اس بات پر یقین کئے بنا رہا نہیں جاسکتا کہ اب تک اس طرح کی تحریکوں کا ثمر بہت ہی کم گراس روٹ لیول تک کسی کو ہوا ہے۔کسی بھی تحریک کی جڑیں جب تک گراس روٹ لیول تک مظبوطی سے جڑی نہیں ہوں گی اس کا ثمر بار ہونا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں اس طرح کی تحریکوں کو عموما خواتین کا وہ طبقہ چلا رہی ہوتی ہیں جو مردوں سے زیادہ حقوق کے پہلے سے مالک ہیں۔ اس درد کا احساس وہ لوگ کہاں سے پیدا کریں گے جو کبھی اس دکھ اور تکلیف کا حصہ ہی نہیں رہے بلکہ ان کو یہ تک پتہ نہ ہو کہ اصل میں وہ کون سے حقوق ہیں جس کی لڑائی وہ لڑ رہے ہیں۔
کسی بھی تحریک میں متاثرہ طبقے کی آواز سب سے توانا آواز ہوتی ہے۔ہمارے حقوق نسواں کیتقریبا تمام تحریکیں اس توانا آواز سے یکسر محروم ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایسی تحریکیں جنم تو لیتی ہیں مگر استحصالی طبقے کے ہاتھوں یرغمال ہونے کے بعد اپنا اثر و رسوخ اور افادیت کھو دیتی ہیں۔یہ شروع و اختتام کا کھیل ہمیشہ سے جاری ہے، نتائج کی پرواہ کئے بغیر۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم کم از کم حقوق نسواں کی تحریکوں میں خواتین کے ان نمائندوں کو شامل کریں جو ان تمام مراحل سے گزر چکے ہیں اور اس احساس کو لئے جی رہی ہیں کہ شاید انسان ہی نہیں ہیں۔ وہ کوئی عضو معطل ہیں اورانسانوں کی بستی کے کسی بھی جسم کے ساتھ فٹ نہیں بیٹھتے۔
آج ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ اصل میں خواتین کے مسائل کیا ہیں۔ اور ہم انہیں حل کرنے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ ہمارے معاشرے میں صدیوں سے جنس کی بنیاد پر کچھ اصول و ضوابط وضح کئے گئے ہیں انہی اصولوں کے پیش نظر ہر بچے کی تربیت کی جاتی ہے۔ مطلب آپ ایک گھر میں دو انسانوں کی الگ الگ تربیت کرتے ہیں۔ بیٹے کی تربیت میں وہ سب شامل کرنا توہین کے زمرے میں آتا ہے جو بیٹی کی تربیت کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ اور لڑکی کی تربیت کا سب سے اہم جز بے اختیار ہونا ہے۔ تربیت میں یہ بھی شامل ہے کہ  حالات کچھ بھی ہوں، غلطی کسی کی بھی ہو۔ سمجھوتہ صرف لڑکی کو ہی کرنا ہے۔آپ کی آہ ہو یا واہ، وہ ایک دائرے سے باہر اور کسی اور کے اختیار کے بغیر کسی صورت ممکن نہیں۔آپ انسان ہیں مگر آپ کا مالک کوئی دوسرا انسان ہے۔آپ کو ہنسنا بھی کسی کی مرضی سے ہے اور رونا تو ہے ہی۔ یہ سب کچھ چونکہ تربیت میں شامل ہوتا ہے اس لئے کوئی بھی خاتون عمر کے کسی بھی مرحلے میں خود کو انسان تصور کرنے کو تیار نہیں ہوپاتی۔
آج ایک سوال کرنے کو جی چاہ رہا ہے کہ کیاہمیں تحریکوں کی ضرورت ہے حقوق حاصل کرنے کے لئے  یا پھر ہم اپنی بیٹیوں کی گھر میں ہی انسانوں جیسی تربیت کرسکتے ہیں۔ ہمیں انہیں انسان ہونے کا احساس کیوں اپنی تربیت کے ذریعے فراہم نہیں کررہے ہیں۔ بیٹیوں کو روبوٹ بناکے مفلوج کرنے سے اچھا یہ نہیں ہوگا کہ ہمیں ان کی انسانوں جیسی تربیت کرکے معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنائیں۔
خواتین کا عالمی دن سب کو مبارک

شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
72271