Chitral Times

Apr 2, 2023

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

شب برات مرادوں بھری رات – تحریر: قاضی محمد شعیب ایڈووکیٹ

شیئر کریں:

شب برات مرادوں بھری رات – تحریر: قاضی محمد شعیب ایڈووکیٹ

اللہ پاک نے امت مسلمہ کو اپنے خاص فضل و کرم سے نوازنے کے ساتھ ساتھ اپنے پسندیدہ حبیب پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی امت میں شامل کیا اور اپنی لاریب کتاب قران کریم بھی عطاکی ہے دنیا اسلام کے لئے تا قیامت رشدو ہدایت ہے۔ ان تمام برکتوں اور نعمتوں میں ایک عظیم نعمت شب برات بھی ہے۔ جو تما م اہل اسلام کے لیے مغفرت، رزق کی تقسیم ، زندگی موت کا تعین اوردیگر مرادیں پور ی ہونے کے اٹل فیصلے کی رات شمار ہوتی ہے۔ جس میں اللہ تعالی فرشتوں کے سامنے قسمت کے اٹل فیصلے صادر فرماتے ہیں۔ اسلامی سال کے مہینے شعبان المظم کی پندرویں رات کو شب برات کو فضیلت اور عظمت حاصل ہے۔ جو شعبان کی چودہ تاریخ کے سورج غروب ہونے سے شروع ہو کر پنددرھویں تاریخ کی صبح صادق تک قائم رہتی ہے۔فارسی میں شب برات کو نجات پانے والی رات کہا جاتا ہے۔ اس شب کو بے شمار گناہگاروں کو مغفرت عطا کی جاتی ہے۔ اس لئے اس رات کو شب برات کا درجہ حاصل ہے۔ اللہ تعالی اپنے بندوں کے تما م گناہ بخش عطا کر کے انھیں پاک و صاف کر دیتا ہے۔ اس رات کو سالانہ تمام فیصلوں کی تجدید ہوتی ہے۔ قران کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے۔ ؛اس رات میں ہر حکمت والے کام فیصلہ کردیا جاتاہے؛ بقول شاعر:

جسے چاہا در پہ بلا لیا
جسے چاہااپنا بنا لیا،
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے،
یہ بڑے نصیب کیا بات ہے

ام لمومنیں حضرت عائشہ صدیقہؑ نے ہمارے پیغمرحضرت محمدﷺسے عرض کیا کہ یا رسولﷺ ماہ رمضان میں آپ روزے رکھتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے۔آپﷺ نے ام لمومنیں حضرت عائشہ صدیقہؑ سے فرمایاکہ یہ ایسا مہینہ ہے کہ باقی کے عرصے میں مرنے والوں کے نام ملک الموت کو لکھ کراس ماہ میں دے دئیے جاتے ہیں۔میں چاہتاہوں کہ جب میرا نام دیا جانے لگے تو میں حالت روزہ میں ہوں۔اس طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں ارشاد فریاکہ اللہ تعالی خیرکو چار راتوں میں خوب اضافہ عطا فرما دیتا ہے۔جن میں عیدالاضحی کی رات،عیدالفطرکی رات،شعبان کی پندرھویں رات اور نویں ذ ی الحجہ کی رات شامل ہے۔ ان تما م راتوں میں صبح کی اذان تک خیروبرکت نازل ہوتی رہتی ہے۔ حضرت ابوبکرؑسے روایت ہے کہ حضورﷺنے فریاکہ اے مسلمانوں شعبان کی پندرھویں رات کوعبادت کیا کرو، اس کامل یقین سے ذکروفکر میں مشغول رہوکہ یہ ایک مبار ک رات ہے۔اور اس رات میں مغفرت چاہنے والوں کے جملہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؑسے ایک دوسری روایت ہے کہ حضرت محمدﷺنے فریاکہ شعبان کی پندرھویں شب میں اللہ تعالی آسمان و دنیاپر(اپنی شان کے مطابق)جلوہ گرہوتاہے۔اور اس شب ہر کسی کی مغفرت فرما دیتاہے۔

 

سوائے مشرک اور بغض رکھنے والے کے۔ حضرت عائشہ صدیقہؑ سے رایت ہے کہ جس میں مغفرت سے محروم رہنے والوں میں ان لوگوں کا بھی ذکر ہے۔رشتے توڑنے والا،بطورتکبر چادر ٹخنوں سے نیچے رکھنے والا۔ ماں باپ کا نافرمان،اور شراب نوشی کرنے والا۔ ایک اور روایت میں بیان کیا کہ ایک رات میں نے حضورﷺ کوبستر پرنہیں پایا۔ میں آپﷺ کی تلاش میں نکلی۔ آپﷺ مجھے بقیع میں ملے اس حال میں کہ اپنا سرآسمان کی طرف بلند کیے ہوئے تھے۔مجھے دیکھ کر فرمایاکہ اے عائشہؑ کیا تجھے اندیشہ تھا کہ اللہ اور اس کے رسول تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے۔حضرت عائشہؑ نے فرماتی ہیں کہ میں عرض کیا کہ نہیں یہ بات نہیں،مجھے گمان ہوا کہ آپﷺ اپنی کسی بیوی کے پاس چلے گے ہیں۔فرمایا بے شک اللہ تعالی نصب شعبان کی رات آسمان دنیا پر اترتا ہے اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بال کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔اس طرح احادیث میں آتا ہے کہ حضورپاکﷺ سے حضرت علیؑ سے فرمایا کہ جب شعبان المظم کی رات آئے تواس رات کو عبادت اور قیام میں گذارو اس کے دن میں روزہ رکھو۔ حضرت عثمان بن ابی العاصؑ سے روایت ہے کہ حضورﷺنے ارشاد فرمایاکہ جب شعبان کی پندرھویں رات آتی ہے۔ تو رب تعالی کی طرف سے اعلان ہوتا ہے۔ کہ ہے کوئی مغفرت کا طالب کہ اس کے گناہ بخش دوں۔ ہے کوئی مجھ سے مانگنے والاکہ اسے عطا کر وں۔ اس وقت اللہ تعالی سے جو مانگا جائے وہ ملتا ہے۔وہ سب کی دعا قبول فرماتا ہے۔سوائے بدکارہ عورت اور مشرک کی۔

بقو ل شاعر:
صج کے تخت نشین شام کو مجرم ٹھہرے،
ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا ہے

شب برات رحمتوں اور مغفرتوں کی رات ہے۔ اس دوران بعض افراد اللہ تعالی کی مغفرت سے محروم بھی ہوجاتے ہیں۔جوسچی توبہ نہیں کرتے اور اپنی گناہ آلود عمال میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ شب برات کواللہ پاک اپنے فرشتوں کو سال بھر کے تمام امور کے فرائض کی بجا آوری کے احکامات صادر فرما دیتے ہیں۔اللہ کریم کے بندوں کو چائیے کہ دنیا و آخرت کے مصائب و آلام نجات کی دعاکریں۔اللہ تعالی سے دنیا و آخرت کی برکات و خیرات طلب کریں۔ اللہ تعالی اور اس کے مخلوق کو راضی کریں تاکہ دنیا وآخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ دنیا مومن کے لئے امتحان ہے اور آخرت اس کی حیات ہے۔

بقول شاعر: ملے خاک میں اہل شاں کیسے کیسے،
مکیں ہو گئے لامکاں کیسے کیسے،
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے،
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے،
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے،
یہ عبرت کی جاء ہے تماشا نہیں ہے۔


شیئر کریں: