Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خواتین ووٹ کی حق سے محروم کیوں؟ ۔ عبداللہ شاہ بغدادی

Posted on
شیئر کریں:

خواتین ووٹ کی حق سے محروم کیوں؟ ۔ عبداللہ شاہ بغدادی

اسلام نے عورت کو جو مقام دیا ہے وہ کسی اور مذہب نے نہیں دیا۔ ا للہ تعالیٰ نے جنت کو ماں کے قدموں تلے بنا دیا تو بہن‘ بیوی جیسے خوبصورت رشتے بنا دئیے تاکہ مرد اور عورت کے درمیان گھریلو زندگی خوشگوار بن سکے۔ اگر اسلام کے رہنما اصولوں کو مدنظر رکھا جائے تو ہر گھر جنت کا گہوارہ بن سکتا ہے کیونکہ اسلام نے عورت کے معاشی‘ سیاسی اور تمدنی حقوق کا ایسا چارٹر پیش کیا ہے اور اگر قرآن و سنت کے مطابق اس پر صحیح عمل کیا جائے تو عورت کو گھر کی چار دیواری سے باہر نکلنے کی ہرگز ضرورت پیش نہ آئے مگر صورتحال اس کے برعکس ہے اسلام میں دیگر مذاہب کے مقابلے میں عورت کو انتہائی تحفظ‘ احترام اور حقوق عطا کرتے ہوئے معاشرے میں انسانوں میں برابری کا درجہ دیتا ہے مگر انتہائی افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ بے چاری عورت مسلمانوں کے ہاتھوں میں محفوظ نہیں ہے۔مارچ کا مہینہ آتے ہی ہر سال پوری دنیا میں یوم خواتین بڑے اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے،لیکن افسوس صد افسوس غریب اور متوسط خواتین کے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں اور ان مسائل کے حل کے حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آتی اور نہ اس طرف توجہ دی جاتی ہے، اسلام نے جتنے حقوق خواتین کو دیے ہیں شاہد ہی کسی دوسرے مذہب اور معاشرے میں خواتین کو حال ہوں بحیثیت ماں، بیٹی، بہن اوربیوی عام خاتون کا کردار متعین کر کے عورت کی عزت اور ناموس کی حفاظت کی ہے۔

 

اگر ہمارا معاشرہ،حکومت اور قانون ساز ادارے اسلامی تعلیمات سے راہنمائی حاصل کریں اور سنجیدگی کا مظاہر ہ کریں تو تقریبا تمام مسائل جن میں اس وقت عورت گرفتار ہے،معاشرے میں اس کے استحصال پر کڑی نظر رکھتے ہوئے محبت و اخوت کا ماحول فراہم کریں گے، دنیا میں ہر سال 8مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے تاکہ خواتین کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ سے بھی تجاوز کر چکی ہے او اس میں 52فیصد خواتین شامل ہیں آدھی سے زیادہ آبادی کے لئے وہی سہولیات ہونی چاہئے جو مردوں کے لئے دستیاب ہیں، ہر سال ملک کے مختلف حصوں میں سینکڑوں لڑکیاں جنسی تشدد کا شکار ہوئیں۔ اسی طرح اجتماعی زیادتی‘ تیزاب گردی‘ غیرت کے نام پر قتل‘ اغوا‘ جائیداد سے محروم کرنا‘ ہراساں کرنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔حکومت کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری تنظیموں کا بھی فرض و ذمہ داری ہے کہ وہ صرف دن منانے کی بجائے خواتین کی ترقی کے لئے عملی اقدامات کریں،ہر سال 8مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر خواتین کی سماجی، سیاسی اور اقتصادی کامیابیوں کا جشن منایاجاتا ہے۔پاکستان کی 52فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے مگر معاشرتی طور پر خواتین کو کم تر سمجھا جاتا ہے اور ان کو معاشرے میں ترقی کے برابر مواقع میسر نہیں ہیں۔حکومت پاکستان کو چاہیے کہ عورتوں کے حقوق کا تحفظ کرے،ان کو تعلیم کی سہولتیں فراہم کرے، خواتین کو میرٹ کے مطابق ملازمتیں فراہم کرے،ورکنگ ویمن کو قانون کے مطابق اوقات کار میں تحفظ فراہم کیا جائے۔خواتین کو قانون کے مطابق وراثت میں حصہ ملنا چاہیے تاکہ وہ سماجی اور معاشی طور پر باوقار زندگی گزار سکیں۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی خواتین رہنماؤں کو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کے حقوق کی آواز بلند اور خواتین کے مفاد کا تحفظ کرنا چاہیے۔

اس حوالے سے غیر سرکاری تنظیم آئی آرایس پی کے پروجیکٹ کوارڈینیٹرعزیز احمد نے کا کہنا ہے کہ انتخابات میں ووٹ کا استعمال مرد کی طرح ہر عورت پر بھی لازم ہے، اس لیے جہاں جہاں عورت کے معاشرتی طور پر ووٹ کاسٹ کرنے پر پابندی ہے یا قبیلے کی جانب سے کسی متفقہ نمائندے کو ووٹ ڈالنے پر زبردستی دباؤ ہے تو اس سماجی رجحان کے خاتمے کے لیے موثر جدوجہد کرنی ہوگی،سیاسی شعور کی بیداری کے لیے بھی بنیادی اقدامات نجی اور قومی سطح پر اٹھانے ہوں گے،انہوں نے کہا کہ ”انتخابات کے مختلف مراحل میں خواتین کے مسائل“ کے حوالے سے ضلع مردان میں فافن، ٹی ڈی ای اے اور آئی آر ایس پی کے تعاون سے بہت کام کیا،انہوں نے کہا کہ ووٹ کے درست استعمال سے اچھے لیڈر کو آگے لایا جا سکتا ہے، حقیقی جمہوریت سے ہی ملک ترقی کر سکتا ہے۔ دنیا سے اب رنگ نسل، مذھب اور ذات پات کے فرق کو ختم کیا جا چکا ہے پر بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ فرق اب تک موجود ہے جس کو ووٹ کی طاقت سے ختم کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گاں اور علاقوں میں ووٹ کی اہمیت کو اجاگر کریں اور خاص طور پر دیہات کی خواتین کے ووٹ کا اندراج کرائیں کیونکہ ہمارے ہاں خواتین کی تعداد 50 فیصد سے زائد ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ووٹر لسٹوں میں خواتین کی تعداد بہت کم نظر آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ووٹ قوم کی امانت ہے اور اس کا درست استعمال سب کا فرض ہے۔انہوں نے کہا کہ خواتین ہمارے معاشرے اور سیاست میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔

 

مختلف سٹڈیز سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاست میں خواتین کی تعداد جتنی زیادہ ہو، وہ خواتین کے خلاف ہراسیت اور صنفی برابری کی بنیادی شرط کی تکمیل پر اتنی زوردار طریقے سے آواز بلند ہوتی ہے۔ فیصلہ سازی میں جیسے جیسے خواتین کی نمائندگی بڑھتی جاتی ہے، خواتین پر سیاسی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک کی قیادت اس وقت خواتین کے ہاتھ میں ہے،انہوں نے کہا کہ ملکی تعمیر و ترقی کے لیے سیاست میں خواتین کا کردار موثر بنانے کی ضرورت ہے،صحتمند معاشرے کے پیچھے مثالی عورت کا کردار ہوتا ہے، خواتین کا سیاسی کردار اسلامی اقدار کے مطابق رکھنا ہوگا، حوصلہ افزائی کے بجائے خواتین کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے‘ خواتین پارلیمنٹرین اپنی صنف اور تعلیم و صحت سے متعلق بہتر قانون سازی کرسکتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ پارلیمانی خواتین کو متعلقہ شعبوں میں زیادہ سے زیادہ خدمات انجام دینے کا موقع فراہم کیا جائے۔ خواتین کسی بھی معاشرے کا نصف حصہ ہوتی ہیں اور مردوں کی طرح ان کا بھی ملک و قوم کی فلاح و بہبود میں کلیدی کردار ہوتا ہے،ہمارے عام حالات پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہاں بھی خواتین کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو برابری کی بنیاد پر یا ان کے حقوق کی بنیاد پر دی جانی چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں میں خواتین کو فیصلہ سازی میں برابری کی بنیاد پر حق دیا جائے، سیاسی جماعتوں میں خواتین کے لیے کوئی ونگ نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں میں صنفی امتیاز کے بغیر خواتین کو آگے بڑھنے کے مواقع دئیے جائیں،انہوں نے فیصلہ سازی کے عمل میں صنفی بنیادوں پر مساوات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آنے والے انتخابات میں خواتین کی سیاسی شمولیت کو یقینی بنانے کیلئے سیاسی جماعتوں میں برابری کی بنیاد پر عملدرآمد کرنا ہوگا تاکہ خواتین سیاسی، سماجی اور معاشی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں،انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر انتخاب کے لیے انتظامی ڈویژن کی بنیاد پر کوٹہ کے نفاذ کے لیے قانون سازی کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ علاقوں کی خواتین کو اسمبلیوں میں نمائندگی مل سکے اور ایسے علاقوں میں خواتین کے سیاسی کردار میں اضافہ ہو جہاں خواتین کی سیاست میں شرکت برائے نام ہے۔

ساؤتھ ایشیا پارٹنرشپ پاکستان جذبہ پروگرام کے لوکل ریسورس پرسن نصرت آراء نے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین نے مختلف شعبوں میں اپنا لوہا منوایا ہے، خواتین کو کوٹہ تک محدود کرنے کی بجائے انہیں دیگر مردوں کے مقابلے میں اوپن میرٹ کیلئے مواقع فراہم کی جانی چاہیے، سیاسی عمل میں خواتین کی شمولیت سے ان کے مسائل کے حل میں آسانی ہوگی بلکہ وہ خود ان خواتین کے مسائل کے حل کیلئے آگے بڑھ سکتی ہے جہاں تک ایک عام خاتون کی رسائی نہیں ہے،نصرت آرا نے کہا کہ جذبہ پروگرام کے زیر ا ہتمام ملک بھر کے مختلف اضلاع میں عورتوں کی سیاسی عمل میں موثر شمولیت یقینی بنانے اور ان کے مسائل کے حل کیلئے کام کیا جارہا ہے،جس کا مقصد پاکستان میں خواتین کو سیاسی عمل میں شمولیت کے حوالے سے آگاہی پہنچانا اور ساتھ ہی ساتھ خواتین کی سیاسی عمل میں شرکت کو یقینی بنانا شامل ہیں۔اس پروگرام کے تحت خواتین میں صنفی برابری، خواتین کے حقوق پر شعور ابھارنا اور سیاسی عمل میں عورتوں کے با مقصد کردار کی ترویج کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ جذبہ پروگرام جو انسانی معاشرے کی ترقی کیلئے سرگرم ہیں۔جذبہ پروگرام خواتین بالخصوص سیاسی عمل سے منسلک خواتین کی تربیت کیلئے پروگرام منعقد کرتے ہیں

 

پاکستان میں خواتین کی سیاسی عمل اور ووٹ کے کاسٹنگ میں حصہ بہت کم ہے جذبہ پروگرام کے ذریعے کمیونٹی کے ساتھ مل کر کوشش کررہے ہیں کہ خواتین کا سیاسی عمل میں شمولیت بے حد ضروری ہے جتنا مرد ہے۔ انسانی معاشرے میں مسائل کا حل تب ہی ممکن ہے جب خواتین مرد کے شانہ بشانہ مل کر کام کرے۔جذبہ ڈسٹرکٹ فورم میں وکلاء یوتھ،خواتین، میڈیا سمیت مختلف مکتبہ فکر کے لوگ شامل ہیں۔خواتین کے حقوق، قانون سازی، تحقیق سمیت خواتین کے مسائل پر کام کررہا ہے سیاسی عمل میں خواتین کی شمولیت سے ان کے مسائل کے حل میں آسانی ہوگی بلکہ وہ خود ان خواتین کے مسائل کے حل کیلئے آگے بڑھ سکتی ہے جس تک ہر عام خاتون کی رسائی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں میں خواتین کی نمائندگی بہت کم ہے جس کیلئے ہمیں جدوجہد کی ضرورت ہے۔ پارٹیوں کے ہر شعبے میں خواتین کو نمائندگی دینے کی ضرورت ہے انہیں شمولیت کا موقع دیا جائے تاکہ انہیں آگے آنے کا موقع ملے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی عمل میں خواتین کی شمولیت کو بڑھانے کیلئے جذبہ پروگرام ملک بھر میں خواتین کو ووٹر لسٹ میں اپنے نام کے اندراج کیلئے آگاہی مہم شروع کیں جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ ایک بہترین معاشرے کی تعمیر کے لئے سیاست میں خواتین کی شرکت ضروری ہے۔ تاہم ابھی بھی سیاست میں خواتین کو بہت سارے چیلنجوں کا سامنا ہے جن میں نفرت انگیز تقریر، صنف پر مبنی امتیازی سلوک اور ہراساں کرنا شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کی خواتین نے آج اس مقام پر پہنچنے کے لیے بہت محنت کی ہے اور ہم ملک کو خواتین کے لیے ایک محفوظ مقام بنانے کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
72243