Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سپریم کورٹ اور ہمارا سیاسی نظام – میری بات؛ روہیل اکبر

Posted on
شیئر کریں:

سپریم کورٹ اور ہمارا سیاسی نظام – میری بات؛ روہیل اکبر

سپریم کورٹ نے ہمارے سیاسی نظام کی نہ صرف قلعی کھول دی بلکہ ہمارے لڑتے جھگڑتے سیاستدانوں کی ایک اور مشکل بھی حل کردی ورنہ ہمارے سیاستدان مل جل کر نہ جانے پاکستان کو کہاں دھکیل رہے ہیں اس فیصلہ پر بات کرنے سے پہلے دو اور چھوٹی سی خبریں جو آنے والے دنوں میں دب جائیں گی پہلی یہ کہ بزدار حکومت میں سابق مشیر زراعت عبدالحئی دستی کے گھرسے انٹی کرپشن نے چھاپہ مار کر مختلف پر ٹھیکوں پر کمیشن اور لوٹ مار کے تقریبا ساڑھے بارہ کروڑ روپے سے زائدرقم برآمد کی ہے یہ صرف ایک عوامی خدمتگار کا حال ہے یہاں پر تو پٹواری سے لیکر اوپر تک یہی صورتحال ہے اور دوسری خبرانتہائی تکلیف دہ ہے کہ پاکستان ریلوے کی طرف سے ہاکی کھیلنے والی 27 سالہ شاہدہ رضا سہا بے روزگاری سے تنگ آکر مستقبل کے سہانے خواب پلکوں پر سجائے ترکی سے کشتی پر اٹلی جاتے ہوئے سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوگئی شاہدہ رضا پاکستان ویمن ہاکی ٹیم کی اہم رکن بھی رہیں شاہدہ رضا فٹبال کی بھی بہترین کھلاڑی تھیں اور ویمن فٹبال میں بلوچستان یونائیٹڈ کی نمائندگی کرتی رہیں ہمارے ہاں تو کھیلوں بھی بھی سیاست گھس آئے ہی ابھی پاکستان وویمن کرکٹ ٹیم کی کپتان نے بھی استعفی دیدیا ہے

 

اسکے پیچھے کیا محرکات ہیں وہ بھی سامنے آجائینگے اب رہی بات الیکشن کی وہ سپریم کورٹ نے مسئلہ حل کردیا ہے جبکہ حکومت سیکیورٹی کا بہانہ بنا کر الیکشن سے فرار چاہتی تھی حالانکہ ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال اتنی خراب نہیں ہے جتنی 2008 اور 2013 کے عام انتخابات کے دوران تھی جبکہ 2018 میں بھی صورتحال اتنی بہتر نہیں تھی 2008 میں انتخابات 18 فروری کو ہوئے تھے اس وقت سیکیورٹی کی صورتحال انتہائی مخدوش تھی کیونکہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو انتخابات سے صرف دو ماہ قبل 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا تھا اکتوبر 2007 میں کراچی میں بے نظیر بھٹو کے استقبال کے لیے منعقد ہونے والی پیپلز پارٹی کی ریلی میں دھماکے کے نتیجے میں 180 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے 2007 جولائی میں لال مسجد آپریشن بھی دیکھا گیا تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی)بھی عام انتخابات دسمبر 2007 سے محض دو ماہ قبل قائم ہوئی تھی 2007 میں 639 دہشت گرد حملے ہوئے جن میں 1940 افراد ہلاک اور 2807 زخمی ہوئے جنوری 2008 میں 39 حملوں میں 459 افراد ہلاک ہوئے جو زیادہ تر کے پی اور سابق فاٹا کے علاقے میں ہوئے۔ 2022 کے دوران پاکستان کو 380 عسکریت پسند حملوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں 539 افراد ہلاک اور 836 زخمی ہوئے۔ اس کا مطلب ہے کہ 2007 کے مقابلے 2022 میں اموات میں 72 فیصد اور زخمیوں کی تعداد میں 70 فیصد کمی واقع ہوئی ہے صرف جنوری 2008 کے عام انتخابات سے پہلے اموات کی تعداد 2022 کے پورے سال سے زیادہ تھی۔

2013 میں عام انتخابات 11 مئی کو ہوئے تھے اور اس سے پہلے کے چار ماہ میں ملک میں 366 دہشت گرد حملے ہوئے جن میں 1120 افراد ہلاک اور 2151 زخمی ہوئے اس کا مطلب ہے کہ ان چار مہینوں میں 2022 کے پورے سال کے مقابلے میں 52 فیصد زیادہ اموات اور 61 فیصد زیادہ زخمی ہوئے جبکہ 2013 کی انتخابی مہم کے دوران دہشت گردوں کا بڑا ہدف سیاسی جماعتیں تھیں 2013 کے الیکشن میں ہی 60 روزہ انتخابی عمل کے دوران مختلف امیدواروں، انتخابی دفاتر، مختلف سیاسی جماعتوں کے جلسوں، پولنگ سٹیشنوں اور الیکشن کمیشن کے دفتر پر 59 حملوں میں کم از کم 119 افراد ہلاک اور 438 سے زائد زخمی ہوئے اے این پی، پی پی پی، ایم کیو ایم اور آزاد امیدوار 2013 کی انتخابی مہم کے دوران دہشت گردوں کا بڑا ہدف تھے اس میں کوئی شک نہیں کہ 2021 کے مقابلے میں 2022 کے دوران دہشت گردانہ حملوں میں تقریبا 32 فیصد اضافہ ہوا تاہم حالات 2008 اور 2013 کے مقابلے بہت بہتر ہیں پاکستانی سیکیورٹی فورسز بھی 2008 اور 2013 کے مقابلے بہتر تربیت یافتہ اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں اس لیے اگر ان حالات میں سپریم کورٹ نے آئین کی پاسداری کرتے ہوئے ایک تاریخی اور لازوال فیصلہ دیا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے

 

اس فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ نے انتخابات از خود نوٹس میں فیصلہ دیتے ہوئے 90 روز میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کروانے کا حکم دے دیا عدالت نے نے صدر مملکت کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے پنجاب جبکہ کے پی میں گورنر کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے الیکشن کی تاریخ دینے کا حکم دیا سپریم کورٹ نے صدر کا 20 فروری کا حکم پنجاب کی حد تک درست قرار دیتے ہوئے کے پی اسمبلی کے لیے کالعدم قرار دے دیااور کہا کہ گورنر کے پی فوری طور پر انتخابات کی تاریخ دیں اور تمام وفاقی اور صوبائی ادارے الیکشن کمیشن کو سیکورٹی سمیت ہر طرح کی امداد فراہم کریں چیف جسٹس نے 22 فروری کو انتخابات میں تاخیر پر از خود نوٹس لیتے ہوئے 9 رکنی لاجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ حکمران اتحاد نے بینچ میں شامل 2 ججز جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی پر اعتراض اٹھایا تھا۔جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے بھی خود کو بینچ سے علیحدہ کرلیا تھا جس کے بعد چیف جسٹس نے دوبارہ 5 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا پنجاب اور کے پی انتخابات از خود نوٹس کی 4 سماعتیں ہوئیں اور گزشتہ روز 7 گھنٹے کی طویل سماعت میں فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ نے فیصلہ میں کہا کہ آئینی طور پر انتخابات 90 روز میں ہوں گے کوئی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا ہے انتخابات وقت پر نہیں ہوئے تو ملک میں استحکام نہیں آئے گا میں سمجھتا ہوں کہ ہماری عدلیہ جرات،بہادری اور دلیری سے اپنا کام کررہی ہے ورنہ ہمارے سیاستدانوں کے کارنامے تو سب کے سامنے ہی ہیں جو قیام پاکستان سے لیکر اب تک لوٹ مار میں مصروف ہیں وہ دن نہ جانے کب آئیں گے جب ہمارا مزدور بھی خوشحال ہوگا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
72060