Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سفر وسیلہ سبکی و بدنامی – محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

سفر وسیلہ سبکی و بدنامی – محمد شریف شکیب

خبر آئی ہے کہ اٹلی کے قریب غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے 28پاکستانیوں سمیت 58افراد جاں بحق ہوگئے۔ بوسیدہ کشتی میں 180افراد سوار تھے جو اٹلی کے قریب سمندر کی چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگئی۔ڈوبنے والوں میں سے پچاس افراد کو بچالیا گیا۔ دیگر افراد کی تلاش جاری ہے۔ ہلاک ہونےوالوں کی تعداد مین اضافہ ہوسکتا ہے۔ ان غیر قانونی تارکین وطن میں پاکستان ، ایران اور افغانستان کے باشندے شامل ہین جو یورپ جانا چاہتےتھے۔یہ کوئی پہلا واقعہ نہین ہے۔ لوگ اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر اچھے مستقبل کی تلاش مین غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر ایسے ہی دردناک انجام سے دوچار ہوجاتےہیں۔گذشتہ ایک سال کےدوران پاکستان سے کم و بیش 8 لاکھ افراد اچھے مستقبل کا خواب آنکھوں مین سجائے قانونی اور غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک جاچکے ہیں.جن میں سے سینکڑوں افراد اپنی زندگیاں داو پر لگا چکے ہیں ان کے والدین، بیوی بچوں اور رشتہ داروں کو خبر ہی نہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔

 

پاکستان سے ہر روز کئی افراد اچھی زندگی گزرانے کے خواب کے ساتھ جان جوکھوں مین ڈال کر یورپ کا سفر شروع کرتے ہیں لیکن جب یہ سفر غیر قانونی ہو تو اس میں ایسے مواقع بھی آتے ہیں جس میں صرف زندہ رہنا ہی واحد مقصد بن جاتا ہے۔ایسے افراد میں سے ایک بشارت علی بھی ہیں جو ایک پرخطر سفر کے بعد یونان کے ایک کیمپ میں پہنچے۔انھوں نے 25 جولائی کو شروع ہونے والے اپنے سفر کی کہانی یوں بیان کی ہے کہ انہوں نے جولائی کی 25 تاریخ کو کوئٹہ سے مال بردار گاڑی میں دیگر 25 افراد کے ساتھ ایران کی سرحد عبور کی۔ایران کی سرحد پار کرنے کے لیے پیدل بھی سفر کرنا پڑا اور وہاں سے انہیں 15 سے 14 افراد کی ٹولیوں میں گاڑیوں میں بٹھایاگیا جس میں سے کئی کو گاڑیوں کی ڈکی میں بھی بند کیاگیا اور نو سے دس گھنٹے تک سفر کیا۔وہاں سے وہ بندر عباس پہنچے، جس کے بعد انہیں بسوں میں سامان رکھنے والی جگہوں پر بند کر شیراز پہنچایا گیا اوراس دوران ہمارے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔’ ہمیں راستہ دکھانے والے افغانیوں نے ہم سے سب کچھ چھین لیا،

 

انہوں نے ہمارے کپڑے، پیسے اور یہاں تک جوتے تک نہین چھوڑے ۔وہاں سے آگے کے سفر کے دوران ترکی کی سرحد کے قریب ماکو کے پہاڑوں پر نو دن تک رکنا پڑا۔یہاں ہمیں دیگر افراد کے آنے تک رکنے کا کہا گیا لیکن نو دس دن گزرنے کے بعد جب لڑائی ہوئی تو ہمیں سرحد پار کرائی گئی۔ایران سے 16 گھنٹے پیدل چلنے کے بعد ترکی میں داخل ہوئے اور وہاں ہمیں کمرے میں رکھا گیا وہاں سے ہمیں استنبول پہنچایا گیا جہاں پہلے سے بہت سارے لڑکے آگے جانے کے انتظار میں تھے، ان میں کوئی ایک ماہ سے انتظار کر رہا تھا اور کوئی دس سے بیس دن سے موجود تھا۔‘بشارت علی نے بتایا کہ وہاں سے ہمیں 15 سے 25 افراد کی ٹولیوں میں کشتیوں میں بٹھایاگیا اور ایک جگہ پہنچایاگیا، جس کے بعد 75 کلومیٹر پیدل متلینہ کا سفر کیا اور ایک کیمپ میں پہنچے جہاں پہلے سے شامی اور افغان شہریوں کا بہت زیادہ رش تھا جس کی وجہ سے پرچی بنوانے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔بشارت علی نے بتایاکہ پاکستان میں رہ کر کوڑے سے اٹھا کر کھا لیں لیکن اس راستے پر نہ آئیں۔ بہت خطرناک ہے۔ایجنٹ ہمیں بتاتے تھے کہ آگے کا سفر آسان ہو گا، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے،

 

ہم نے راستے میں جوانوں کی لاشوں کو دیکھا، جیوانی کے سمندر میں کشتی الٹنے سے تین لڑکے مر گئے اور ان کی لاشیں کووں اور کتوں نے کھائیں۔ نہ ان کے والدین کو علم ہے، نہ ان کے بہن بھائیوں کو پتہ ہے کہ ان کے پیاروں پر کیا بیتی۔بشارت علی کے مطابق اگر یونان نے انھیں پناہ دے دی تو یہیں رہیں گے اور آگے نہیں جائیں گے، اگر آگے جانا بھی پڑا تو اسی صورت حال میں جائیں گے جس میں پیچھے پیش آنے والی پریشانیاں نہ ہوں۔ بشارت علی کے مطابق یہاں تک پہنچنے میں ان کے ساڑھے تین لاکھ سے چار لاکھ روپےخرچ ہو چکے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں، پینے کے پانی کا انتظام نہیں لیکن وہ یونانی عوام کے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے بہت تعاون کیا۔انھوں نے بتایا اس وقت یہاں 50 سے زیادہ پاکستانی ہیں جو جرمنی، آسٹریااور فرانس جانا چاہتے ہیں۔صوبہ پنجاب کے ضلع خوشاب کے رہائشی سجاد نے بتایاکہ وہ پاکستان واپس جانے کی بجائے خطرات مول لیتے ہوئے غیر قانونی طریقے سے جرمنی جانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں کیونکہ یورپ میں انھیں روزگار اور حقوق ملنے کی زیادہ امید ہے۔

 

انھوں نے کہا کہ سرحدوں کو عبور کرنے میں کئی طرح کی مشکلات ہیں لیکن بہتر زندگی کی امید کی وجہ سے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ان غیر قانونی تارکین وطن کو یورپی ممالک میں ملازمتیں بھی ملتی ہوں گی۔اور اچھی خاصی تنخواہ بھی ملتی ہوگی۔ مگر ان کی حیثیت غیر قانونی تارکین وطن کی ہی رہے گی اور کسی بھی وقت انہیں ڈی پورٹ کیا جاسکتا ہے۔ یورپ مین کپڑے دھونے، نالیاں صاف کرنے، جھاڑو لگانے، برتن دھونے اور سیلز مین کے طور پر کام کرنے والوں کو کبھی عزت و احترام کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ یہاں تک کہ مشرق وسطی کے مسلمان ملکوں میں بھی پاکستانیوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ افسوس ناک ہے۔ ان غیر قانونی تارکین وطن کی وجہ سے ملک کی بھی بدنامی ہورہی ہے۔ ارباب اقتدار و اختیار کو وسیع تر قومی مفاد میں پاکستان کی ساکھ پر منفی اثر ڈالنے والے اس عمل کے تدارک کا بھی سوچنا ہوگا۔


شیئر کریں: