Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ہجرتی پرندوں کا شکار- تحریر: برہان الدین

Posted on
شیئر کریں:

ہجرتی پرندوں کا شکار – تحریر: برہان الدین

پرندوں اور ہجرتی پرندوں کا شکار ہر معاشرے اور ہر دور میں غذائی ضروریات کی تکمیل کے لئے اور بعض معاشروں میں شوق کی خاطر ہوتا آیا ہے اور ہمارا معاشرہ بھی اس مہم کا حصہ رہا ہے۔ البتہ پرانے وقتوں کی نسبت طریقہ کار بدل گیا ہے۔ جدید ہتھیاروں سے لیس شکاری ایک ہی فائر میں پرندوں کی پوری جھنڈ کا صفایا کردیتا ہے۔
اپنے شوق کی خاطر شکاری جسمانی مشقت، مصنوعی تالاب، خودکار ہتھیار، معاشی وسائل، تربیت یافتہ شکاری کتے اور اڑتے مسافر پرندوں کو دھوکہ دینے کا ہر دستیاب حربہ استعمال کرتا ہے۔ اسی طریقے سے شکاری کا شوق فطرت کے توازن میں بگاڑ پیدا کرکے آنے والی نسلوں کے لئے ان پرندوں کو ناپید ہونے کا مرتکب ہو رہا ہے۔
دراصل کائنات کی بقاء اور حسن میں انسان، پرندے، چرندے، درندے سب برابر کے شریک ہیں اور کسی ایک مخلوق کی کثرت یا قلت فطری حادثات کا باعث بن سکتا ہے۔
شکاری انسان نے پرندوں کے گھونسلوں کے مقامات جنگلات کی کٹائی کرکے اجاڑ رہا ہے جہاں اپنے لئےگھر اور مخلوق خدا کو بےگھر کرنے پر تلہ ہوا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ ہمیں حلال پرندوں اور دوسرے حلال جانوروں کے شکار کی اجازت ہے لیکن اپنے شوق کی خاطر مختلف دستیاب سہولیات کے ساتھ دھوکے بازی کے حربے استعمال کرکے پرندوں کی نسل ختم کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔ ہم مختلف ٹیلی ویژن چینلز پر جانوروں کی فلمیں دیکھتے ہیں اور Animal Planet پر شیرنی کو ایک نوزائیدہ بچھڑے کے ساتھ نرمی اور دوسرے شکاری جانوروں سے بچانے کا منظر بھی دیکھتے ہیں اور اس قسم کے دوسرے نرم رویے بھی اسی چینل پر شکاری جانوروں کے دیکھے گئے ہیں۔ لیکن ان سے بھی سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں ہیں اور ہر حربہ آزما کر اپنی عقلی برتری کو استعمال کرکے ماحولیات (eco system) کو غیرمتوزن کرنے میں مصروف ہیں اور کافی حد تک خمیازہ بھی بھگت رہے ہیں۔ لہزا ضرورت اس امر کی ہے کہ جانوروں کی حفاظت پر مامور ادارے اپنا کردار ادا کریں۔ نئی نسل، اہلِ علم اور زرائع ابلاع کے نمائندے آگے آئیں اور ان پرندوں کی حفاظت میں اپنا کردار ادا کریں۔
سکول کےاساتذہ کو چاہیے کہ اپنے اپنے اداروں میں طلبہ طالبات کے لئے جانوروں، پرندوں کی ماحولیاتی ضرورت اور اہمیت کے بارے میں آگہی پروگرام منعقد کریں۔ محکمہ وائلڈ لائف اور دوسرے قانون نافز کرنے والے ادارے پرندوں اور دوسرے جنگلی حیات کے سلسلے میں قانون کی پکڑ کو سخت کریں اور اس پر عمل کریں۔
شکار کے شوقین حضرات اور اپنے وسائل اور دولت پرندوں کی نسل کشی کے بجائے اپنے بچوں کی معیاری تعلیم پر صرف کریں تاکہ انکی نئی نسل آنے والے challenges کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکے۔ لیکن اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی تو آنے والی نسل ان جنگلی حیات کو اپنی نظروں سے دیکھنے اور ان کے ساتھ اس زمیں پر لطف اندوز ہونے کے بجائے قصوں، کہانیوں اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں پر انحصار کرنے پر مجبور ہوگی جس کی تمام تر ذمہ داری ہماری ہوگی اور ہم اپنے آپکو معافی کے حقدار نہیں پائیں گے۔
برہان الدین
چرون، چترال

شیئر کریں: