Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دیرینہ کارکنوں کی قربانیاں اور سیاسی جماعتیں – شاہ عالم علیمی

شیئر کریں:

دیرینہ کارکنوں کی قربانیاں اور سیاسی جماعتیں – شاہ عالم علیمی

تین چیزوں میں پاکستان تحریک انصاف کا کوئی مقابلہ نہیں؛ اول کیمپین چلا کر، دھرنے ریلیاں نکال کر مخالفین کو ہلکان کرنے میں،  دوم یوٹرن لینے میں؛  سوم وقت نازک پر اپنے دیرینہ کارکنوں کو نظرانداز کرکے الیکڑیبلز کو نوازنے میں۔
اگر آخرالذکر کی بات کی جائے تو تحریک انصاف پاکستان مسلم لیگ نواز کو بھی مات دیتی نظر آتی ہے۔ انتخابات کے ٹکٹ بانٹنا ہو یا انتخابات کے بعد سیٹیں بانٹنی ہو تحریک انصاف کے سپریمو ایسے فیصلے کرتے ہیں کہ جسے دیکھ کر یک گونہ مایوسی انصافیوں میں پھیل جاتی ہے،  اور اس سلسلے میں ان کا criteria ایک ہی ہے یعنی پیسہ۔ جس نے جتنی بڑی بولی لگائی سمجھو ٹکٹ اس کا سیٹ اس کی،  اور پارٹی کے دیرینہ مخلص کارکن کے دل کی کیفیت بزبان مرزا رفیع سودا ؛ “گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی/ اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی” ہوجاتی ہے۔ بچارہ دیرینہ کارکن سڑکوں پر126 دن دھرنا بھی دیتا ہے اور جیل بھرو کے حکم پر رضاکارانہ طور پر جیل بھی چلا جاتا ہے۔ کارکن چونکہ نچلے طبقے کا ہوتا ہے تو ناانصافی بھی اسی کارکن کے ساتھ ہوتی ہے۔
ویسے اگر بندہ گھبرائے بیغیر مثبت زوایے سے سوچے تو یہ قدما کے فلسفے پر عمل پیرا ایک نظریہ لگتا ہے۔ سرسید احمد خاں اور ان کے رفقاء کچھ اسی قسم کی سوچ رکھتے تھے۔
 ان کی تعلیمی پالیسی ہو یا معاشی اور معاشرتی ترقی کے نظریے سب اشرافیہ کے مفاد کے اردگرد گھومتے تھے۔ بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ عام عوام یا نیچلے طبقے کے مسلمان کے فلاح و بہبود ان کے لئے ایک ثانوی چیز تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزوں کے دور میں جب مردم شماری ہوتی تھی تو اس میں اشرافیہ مسلمان اور پسماندہ مسلمان کے الگ الگ خانے ہوتے تھے۔ دوسری چیز جس سے عام عوام اب بھی غالباً لاعلم ہیں وہ اس دور کے انتخابات ہیں؛  ہماری عوام اُس دور کے انتخابات کے بارے میں جب سنتے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ شاید پورے ملک (ہندوستان)  میں عام رائے عامہ کے تحت انتخابات ہوتے تھے جس میں عام عوام بھی ووٹ ڈال کر اپنے نمائندے چنتے تھے۔
ایسا ہرگز نہیں تھا،  بلکہ ان انتخابات میں صرف اشرافیہ ووٹ ڈال سکتا تھا اور وہی اپنے نمائندے منتخب کرتے تھے۔ اب آپ کہیں گے کہ سرکار تو گوروں کی تھی ان کا کیا قصور۔ نہیں جناب دراصل ہمارے اسلاف کی ذاتی سوچ بھی یہی تھی اور وہ اسی پر عمل پیراء تھے۔
چونکہ اس ملک میں 1947ء کے بعد بھی کچھ تبدیل نہیں ہوا وہی نظام ہے وہی اشرافیہ کی حکمرانی ہے۔ البتہ کچھ تبدیل ہوا تو وہ گورے تھے جو چلے گئے جن کی جگہ بھوروں نے لے لی اور انتخابات میں اب عوام کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ تاہم عام عوام کے ووٹ کی طاقت ہے نہ قدر۔ یہی اشرافیہ جس طرح چاہیے اس ووٹ کو استعمال کرسکتا ہے۔ نظام ان کا ہے طاقت ان کی ہے وہ جس طرح چاہیے اس نظام کو manipulate کرسکتے ہیں۔
عوام صرف ووٹ ڈالنے کے لئے ہیں جبکہ اس نظام کے اندر ان کا انتخابات میں حصہ لینا خواب و خیال سے زیادہ نہیں۔
جب 15 نومبر 2020ء کو گلگت بلتستان کے انتخابات ہوئے تو اس میں تحریک انصاف نے گلگت بلتستان کے انتخابات کے لئے ٹکٹ جاری کردئے اور حسب معمول ایک بار پھر ن لیگ، پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کے مال دار تحریک انصاف کا ٹکٹ حاصل کرنے میں  کامیاب جبکہ تحریک انصاف کے 2015ء کے ٹکٹ ہولڈر اور نظریاتی کارکن دیکھتے رہ گئے۔
حشمت اللہ،  ڈاکٹر محمد زمان، عالم نور حیدر، ثناءاللہ خرم اور دیگر لوگ جنھوں نے پارٹی کو مشکل وقت میں سنھبالا اور اس کے پھیلاو میں وقت، علم اور پیسے کی قربانی دے کر مدد کی مگر عین وقت پر نظرانداز کردیے گئے۔ پارٹی ٹکٹ دو اسلامی تحریک والوں کو، ایک پرانے جیالے کو, چار پرانے نون لیگیوں کو دیے گئے جن کا کل تک پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اگر تھا بھی تو مخاصمہ کا تھا۔ پارٹی کے ان دیرینہ کارکنوں کی حالت یوں تھی؛  “ہے کچھ ایسی ہی بات جو چھپ ہوں / ورنہ کیا بات کر نہیں آتی۔”
میں سمجھتا ہوں کہ پارٹی سربراہوں کو صرف پیسہ اور موقع نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ حقیقی کام اور قربانی دیکھنا چاہئے۔ ستاروں پہ کمند پیسے کے ذریعے سے کوئی نہیں ڈال سکتا بلکہ علم اور وقت کے ذریعے سے ڈال دیتا ہے۔ قدر صرف پیسے کی نہیں ہوتی بلکہ علم اور وقت پیسے سے زیادہ قیمتی چیز ہیں۔ تاج و تخت پر سرپھیرا نہیں بننا چاہیے۔ منطق اور حقائق کو عین وقت پس پشت نہیں ڈالنا چاہیے۔ تاج و تخت بھی آنی جانی چیز ہے۔
اور پھر یہ بھی سچ ہے کہ پیسے اور حسن والے وفادار نہیں ہوتے نہ ہی ان کو بقاء حاصل ہے۔ شاعر نے سچ کہا ہے؛  “کس سے پیمانِ وفا باندھ رہی ہے بلبل / کل نہ پہچان سکے گی گل تر کی صورت۔”

شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
71986