Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

برصغیر پاک و ہند کے معروف ادیب و شاعر میر علی شیرکی یاد میں ۔ تحریر: قاضی محمد شعیب ایڈووکیٹ

Posted on
شیئر کریں:

برصغیر پاک و ہند کے معروف ادیب و شاعر میر علی شیرکی یاد میں ۔ تحریر: قاضی محمد شعیب ایڈووکیٹ

قارئین کرام: پاکستان کے صوبہ سندھ کو باب السلام کہا جاتا ہے۔ سندھ کی دھرتی پرحضرت لعل شہباز قلندر، شاہ عبدالطیف بھٹائی، طالب المولی، عبداللہ شاہ غازی، محمدبن قاسم جیسی عظیم ہستیوں کادین اسلام کی تبلیغ اور تراویج میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں ہیں۔ جن کی علم و دانشن کی روشنی پورے برصغیر پاک و ہند میں پھیلی ہوئی ہے۔ سندھ کے ادیب اورشاعر بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ جن کی شہرہ آفاق تصانیف پر آج بھی تحقیق جاری ہے۔ گزشتہ دنوں ایک ادبی مجلس کے دوران صوبائی وزیر ثقافت، نوادرات اور تعلیم سید سردار علی شاہ نے کہا ہے کہ مکلی ایک قوم اور وطن کے قبرستان کی شکل میں مکمل تاریخ کا مظہر ہے، اس لئے مکلی کو ہیمں اسی ہی طرح اپنانا ہوگا تاکہ جہاں کئی بادشاہوں، بزرگوں اور نامور شخصیات سمیت تحفتہ الاکرام، مکلی نامہ، مقالات الشعرا و دیگر 42 کتابوں کے مصنف میر علی شیر قانع ٹھٹھوی جیسے مشہور و معروف شخصیات کے مقبرے موجود ہیں ان کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔

 

ان خیالات کا اظہار انہوں نے عالمی ورثہ مکلی کے تاریخی قبرستان میں انڈومنٹ فنڈ ٹرسٹ کی جانب سے سندھ کے پہلے تاریخدان، محقق و شاعر میر علی شیر قانع ٹھٹھوی کے مقبرے (چوکنڈی) کی تعمیر کی تخت کشائی کی منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ صوبائی وزیر سید سردار علی شاہ نے کہا کہ مکلی دنیا کے عام رواجی چوکنڈیوں اور قبرستانوں جیسا قبرستان نہیں بلکہ مکلی ایک تہذیب کا نام ہے، جہاں اگر وقت کے جنگجو، انقلابی رہنماء اور ہیرو مدفون ہیں تو وہاں غدار بھی مدفون ہیں، مکلی میں اگر عاشق ہیں تو معشوقوں کی آماجگاہ بھی ہے، مکلی میں بادشاہ دفن ہیں تو غلام بھی ہیں، یہاں ہر قسم کے لوگ مدفون ہیں، مکلی ایک زندہ، بیدار اور سانس لینے والی تہذیب ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے عالمی ورثہ کی فہرست میں شامل ممالک کے 6 عالمی ورثوں میں سندھ کے 2 عالمی ورثے موہن جو دڑو اور مکلی بھی شامل ہیں، انہوں نے کہا کہ 1978ء میں موہن جو دڑو جبکہ 1982ء میں مکلی کو عالمی ورثہ کے صور پر فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔

 

انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم سے قبل عالمی ورثہ مکلی کو 36 بار خط لکھ کر کہا گیا کہ ان کی مطلوبہ سفارشات کے مطابق مکلی کے مقبروں اور متاثرہ جگہوں پر کریک مانیٹر، ویدر اسٹیشن، مقبروں کے بورڈز پر نام اور باؤنڈری وال کا کام نہیں کیا گیا تو عالمی ورثہ کی فہرست سے خارج کر دیا جائے گا، جس کے بعد انہوں نے فوری طور پر اقدامات لیتے ہوئے باؤنڈری وال کے علاوہ تمام کام صرف 30 لاکھ روپے کے اخراجات سے مکلی کو ان کے معیار کے مطابق بچا لیا۔ انہوں نے کہا کہ میں مبارکباد دیتا ہوں عبدالحمید آخوند و دیگر کو جنہوں نے میر علی شیر قانع ٹھٹھوی جیسے سندھ کے ایک بھولے ہوئے ورق کو دوبارہ زندگی دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1957 کے دور میں محنت کو ایک قدر اور ویلیو سمجھا جاتا تھا، جیساکہ تاج صحرائی، ابراہیم جویو، ڈاکٹر بلوچ، ایم ایچ پنہور بہت بڑے لوگ جو تحقیق اور محنت پر یقین رکھتے تھے اور محنت کو قدر اور ویلیو سمجھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں 61 کے قریب پبلک اور پرائیویٹ یونیورسٹیز کی تعداد ہے جہاں تاریخ کے شعبہ جات موجود ہیں لیکن ایک بھی تحقیقی مقالہ جوکہ عالمی سطح پر پیش کرنے جیسا ہو نہیں ہوگا جیساکہ تاج سہرائی صاحب اپنی زندگی میں لکھ کر گیا ہو۔

 

انہوں نے کہا کہ میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں آخوند صاحب، ارشاد انصاری اور بدر ابڑو و دیگر کو جن کے ساتھ پڑھے لکھے لوگوں کی ایک ٹیم موجود ہوگی تو یقینن ہمارے تشخص کی علامات بچائیں گے جبکہ اس ضمن میں اداروں کو بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ہم اپنے تشخص کو زندہ رکھ سکیں۔ اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انڈومنٹ فنڈ ٹرسٹ کے رہنماء حمید آخوند، اشتیاق انصاری، شعیب اسماعیل نے کہا کہ انڈومنٹ فنڈ ٹرسٹ کی جانب سے اب تک سندھ میں 46 آثار قدیمہ کی تعمیر و مرمت کی گغی ہے جبکہ میر علی شیر قانع کے مقبرے (چوکنڈی) کی تعمیر کے بعد 47واں منصوبہ ہے جوکہ مکمل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ ثقافتی طور پر شاہوکار ہے اور اس کی ثقافت کو مزید اجاگر کرنے کیلئے سندھ کے دارالحکومت کراچی میں کلچرل کامپلیکس اور کانفرنس ہال تعمیر کرانا ہے۔

 

تقریب کو سندھ مدرستہ الاسلام کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجیب صحرائی، ڈاکٹر سید عبدالحسین شاہ و دیگر نے بھی میر علی شیر قانع ٹھٹھوی کی سوانح حیات پر روشنی ڈالی۔ قبل ازیں صوبائی وزیر تعلیم، ثقافت، نوادرات سید سردار علی شاہ نے میر علی شیر قانع ٹھٹھوی کے نئے تعمیر ہونے والے مقبرہ کے افتتاح کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میر علی شیر قانع ٹھٹھوی سندھ کے ایک بہت بڑے اور اہم تاریخدان تھے جنہوں نے ارغونوں اور کلہوڑوں کے دور میں تاریخ لکھی۔ ایک سوال کے جواب میں صوبائی وزیر نے کہا کہ بارشوں کے باعث موہن جو دڑو، رنی کوٹ، کوٹ ڈجی و دیگر سندھ کے کئی تاریخی مقامات کو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے جن کی بحالی کیلئے محدود وسائل کے سبب انڈومینٹ فنڈ ٹرسٹ کے ساتھ ملکر کام کر رہے ہیں۔

 

انہوں نے کہا کہ فرانس میں عالمی سطح پر ہونے والی موہن جو دڑو کانفرنس میں 206 ممالک کے نمائندے شرکت کریں گے جس سے عالمی ورثہ موہن جو دڑو کو بڑی اہمیت ملے گی۔ اس موقع پر صوبائی وزیر سید سردار علی شاہ نے ٹھٹھہ میں تاریخی کرداروں پر مشتمل ڈرامے کرانے کی بھی یقینی دہانی کرائی تقریب میں الطاف حسین تنیو واحد شورو قادر جاکرو سید تشکیل حسین شاھ شکرالاہی سید کاشان شاھ سلیمان ملاح ملک نظیر احمد علی میمن سمیت دیگر نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ سندھ کے ادیبوں اور شاعروں کی تصانیف سے عوام کو روشناس کرانے کے لیے قومی سطع پر سیمنار منقعد کیے جائیں۔ جن میں ان کی ادبی خدمات کی خراج تحسین پہنچانے کے ساتھ ساتھ ان کے قانونی وراثاء کے لیے رائلٹی کے اجراء کو یقینی بنایا جائے۔ اس سلسلے میں حکومت پاکستان کا ادارہ اکیڈمی آف لیٹرز کے ذمہ دار حکام اپنے فرائض منصبی نہایت بہتر طور پر ادا کر سکتے ہیں۔

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
71958