
نیب کے 221 ریفرنسز واپس ہوئے جس میں صرف 29 سیاست دانوں کے ہیں، حکومت
نیب کے 221 ریفرنسز واپس ہوئے جس میں صرف 29 سیاست دانوں کے ہیں، حکومت
اسلام آباد(چترال ٹایمز رپوٹ ) حکومت نے نیب ترامیم کیس میں سپریم کورٹ کے روبرو کہا ہے کہ نیب ترامیم سے بری یا فائدہ اٹھانے والوں میں سیاستدان بہت کم ہیں، ترامیم کے بعد 2019ء سے اب تک 41 افراد بری ہوئے جن میں صرف 5 سیاست دان ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت کی جس میں وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل دیے۔وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ درخواست گزار پی ٹی آئی کو یہ سمجھانا ہوگا کہ ترامیم سے مخصوص افراد کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا، درخواست گزار کو بتانا ہوگا کہ نیب ترامیم میں نقص کیا ہے، دیکھنا ہوگا کہ درخواست گزار کا اپنا کنڈکٹ کیا تھا؟ جب نیب ترامیم پیش ہوئیں تو عمران خان کا تب کنڈکٹ کیا تھا؟ عمران خان خود کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر عوام کا نمائندہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ درخواست گزار کا موقف ہی یہ ہے کہ وہ ملک کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالت کو نہیں بتایا گیا کہ نیب ترامیم سے کیسے عوام کے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں؟وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ نیب ترامیم کیس میں کوئی بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوئے، نیب ترامیم سے بظاہر کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہوا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر احتساب کے قانون میں رد و بدل سے گورننس پر فرق آیا تو اس میں عوام کے بنیادی حقوق کیسے متاثر ہوئے؟ بنیادی حقوق یا تو متاثر ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے، پوری دنیا میں کہیں یہ نہیں ہوتا کہ 30 فیصد بنیادی حق متاثر ہوا اور 70 فیصد محفوظ ہے، پارلیمنٹ کی قانون سازی کو کوئی شہری سپریم کورٹ میں چیلنج کیسے کرسکتا ہے؟ پارلیمنٹ اگر سزائے موت ختم کردے تو متاثرین کی درخواست پر سپریم کورٹ اسے بحال کرسکتی ہے؟وفاقی وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اگر عدالت کے سامنے درخواستیں آئیں تو ہر قانون سازی میں نقص نکلیں گے، قانون سازی میں کوئی خلا ہو تو اسے پارلیمنٹ ہی درست کرسکتی ہے۔
مخدوم علی خان ں ے عدالت کو بتایا کہ نیب ترامیم سے 2019ء سے اب تک 221 ریفرنسز واپس ہوئے، واپس ہونے والے 221 نیب ریفرنسز میں سے 29 سیاست دانوں کے ہیں، 2019ء سے اب تک نیب سے 41 افراد بری ہوئے جن میں سے 5 سیاست دان ہیں، نیب ترامیم سے بری یا فائدہ حاصل کرنے والوں میں سیاستدان بہت کم ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ترامیم سے مستفید ہونے والے سیاست دان کم ہیں لیکن جو ہیں وہ نمایاں ہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ تحریک انصاف کا موقف ہے کہ نیب قانون میں تبدیلی سے جرم کی شدت اور نوعیت ہی بدل چکی ہے، نیب ملزم کی اہلیہ اور بچوں کو احتساب کے عمل سے باہر کر دیا گیا، حکومت کا موقف ہے کہ اہلیہ اور بچوں کے خلاف تحقیقات کے لیے ٹھوس شواہد ہونے چاہئیں۔وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بار ثبوت کا معیار زیادہ یا کم ہونے سے کون سے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوئے؟ عدالت اگر ایک فریق کی درخواست پر نیب قانون تبدیل کرے تو دوسرے کو بھی یہی حق ہونا چاہیے۔بعد ازاں چیف جسٹس نے کیس کی سماعت 22 فروری تک ملتوی کردی۔
چیئرمین نیب آفتاب سلطان عہدے سے مستعفی
اسلام آباد(سی ایم لنکس)نیب کے چیئرمین آفتاب سلطان نے اپنے عہدے سے استعفا دے دیا ہے۔ذرائع کے مطابق چیئرمین نیب آفتاب سلطان پر ایک ماہ سے شدید دباؤ تھا۔ آفتاب سلطان کو 21 جولائی 2022ء کو چیئرمین نیب لگایا تھا۔آفتاب سلطان نے 25 جولائی 2022ء کو بطور چیئرمین نیب عہدے کا چارج سنبھالا تھا۔دریں اثنا وزیراعظم شہباز شریف نے چیئرمین نیب آفتاب سلطان کا ذاتی وجوہات کی بنا پر دیا گیا استعفا منظور کرلیا۔وزیراعظم نے آفتاب سلطان کی اپنے فرائض کی انجام دہی میں ایمان داری اور فرض شناسی کی تعریف کی۔ وزیراعظم ہاؤس کے پریس ونگ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق چیئرمین نیب آفتاب سلطان کے اصرار پر وزیراعظم نے ان کا استعفا منظور کیا۔واضح رہے کہ نیب قوانین میں ترامیم سے متعلق سپریم کورٹ میں کیس بھی زیر سماعت ہے۔ علاوہ ازیں نئے نیب قانون کے مطابق کون سا کیس کہاں ارسال کرنا ہے، آفتاب سلطان نے مختلف بیوروز میں نئے قانون کے مطابق ڈیوٹیز لگا رکھی تھیں۔علاوہ ازیں نیب ترمیمی ایکٹ چیلنج کرنے کی اسلام آباد ہائی کورٹ بار کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ نیب ترامیم کے بعد عدالت میں زیر سماعت تمام نیب کیسز لارجر بینچ سنے گا۔