Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مادری زبانوں کے نام پہ تجارت ۔ ( اقرارالدین خسرو )

شیئر کریں:

مادری زبانوں کے نام پہ تجارت ۔ ( اقرارالدین خسرو )

دنیا بھر میں ہر سال 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ یہ دن ڈھاکہ یونیورسٹی کے ان طلبہ کی یاد میں منایا جاتا ہے جنھیں 1952 میں شہید کیا گیا تھا۔ ان کا مطالبہ صرف یہی تھا کہ بنگالی زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔ مگر پاکستانی حکمرانوں کو یہ منظور نہیں تھا اسلیے انھیں شہید کیا گیا ۔1999 میں یونیسکو نے یہ فیصلہ کیا کہ ہر سال انکی یاد میں مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جائیگا۔ 2000 سے لیکر اب تک ہر سال یہ دن بین الاقوامی طور پر منایا جاتا ہے ۔ ہر سال یہ دن منانے کا مقصد جو زبانیں معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں انھیں تحفظ دینے کی کوشش کرنا اور لوگوں کے دلوں میں مادری زبانوں کی اہمیت اجاگر کرنا ہے۔ اسلیے اس سلسلے میں بین الاقوامی طور پر بہت ساری تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ فنڈز اکھٹا کرکے منظم کوشش بھی کرتے ہیں مگر پاکستان میں ان فنڈز کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جاتا ہے جو آئی ایم ایف کے قرضوں کے ساتھ کیا جاتا ہے کچھ پیسے ایڈورٹائزنگ میں خرچ کرکے انھیں کچھ لوگوں کی معاونت سے ہڑپ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں معدومیت کے خطرے سے دوچار سب سے زیادہ زبانیں چترال میں ہیں جو کہ ایک درجن سے زائد ہیں ۔ ان زبانوں کے نام پہ جو فنڈز آتے ہیں انھیں اسلام آباد یا پشاور میں بیٹھے کچھ لوگ ہڑپ کرتے ہیں ۔ میڈیا اور ڈونرز کو دیکھانے کے لیے مختلف زبانوں سے کچھ افراد بلائے جاتے ہیں ان سے مقالے پڑھوائے جاتے ہیں اور اپنا مقصد حاصل کرتے ہیں۔

اسلام آباد میں ادبی میلہ لگا کے مختلف زبانوں کے دو تین شعراء کو بلا کے انھیں ایوارڈ دیکر مادری زبانوں کی اہمیت کو نہ اجاگر کیا جاسکتا ہے نہ اس سے اس زبان و ادب کو کچھ فائدہ ہوگا۔ معدومیت کا خطرہ یدغہ زبان کو ہے کلاشہ زبان کو ہے گواربتی ، دامیلی ، واخی، دری وغیرہ زبانوں کو ہے۔ اگر ان کو تحفظ دینا مقصود ہے تو یدغہ کے لوگوں کو لیکر ان کے علاقے میں ایک پروگرام ہونا چاہیے ان کے دلوں میں ان کے زبان کی اہمیت ڈال دینی چاہیے ۔ بمبوریت اور رمبور میں پروگرامات ہونے چاہیے انھیں ان کی زبان و ثقافت کے بارے میں بتانا چاہیے اور انھیں بتایا جائے کہ تمہاری زبان اور ثقافت تمہاری پہچان ہیں لہذا ان پہ فخر کریں ۔ ان کے ساتھ مل کے ان کے ثقافتی لباس پہن کے ان کی زبان میں بات کرنے کی کوشش کرکے زبان کی اہمیت اجاگر کی جاسکتی ہے۔ اور کلاش قبیلے کو خصوصی طور پر یہ بتاتے کی ضرورت ہے جب وہ لوگ اپنا مذہب چھوڑتے ہیں تو ساتھ ہی ثقافتی لباس اور زبان بھی چھوڑ دیتے ہیں انھیں یہ باور کرایا جائے کہ آپ کلاشہ بول کے بھی مسلمان بن سکتے ہیں۔ اسی طرح ارندوئی اور دامیلی زبانوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلیے اسلام آباد اور پشاور میں نہیں بلکہ ارندو اور دامیل میں پروگرامات ہونے چاہیے ۔ لہذا زبانوں کو تحفظ دینے کے حوالے سے جو تنظیمیں ہیں انھیں اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات لینے ہونگے ورنہ زبان معدوم ہوتے جائنگے اور فنڈز کے ساتھ بندر بانٹ کا سلوک ہوتا رہیگا ۔


شیئر کریں: