Chitral Times

Apr 1, 2023

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

غیرجانبدارنہ انتخابات کی نئی تجویز – محمدشریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

غیرجانبدارنہ انتخابات کی نئی تجویز – محمدشریف شکیب

ملک میں عام انتخابات کرانے کا مطالبہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔مگر حکومت انتخابات کرانے کے موڈ میں دکھائی نہیں دے رہی۔پی ٹی آئی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی اچھی بھلی چلتی حکومتیں بھی اس امید پر ختم کردی تھیں کہ ملک کی 65فیصد آباد ی والے دو صوبوں میں کوئی حکومت نہیں ہوگی تو حکومت کو ملک بھر میں عام انتخابات بہ امر مجبوری کرانے پڑیں گے لیکن حکمران اتحاد کا کہنا ہے کہ انتخابات اپنے مقررہ وقت پر اکتوبر میں ہی ہوں گے۔جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عام انتخابات کے لئے اربوں روپے الیکشن کمیشن کو دینے ہیں جبکہ حکومت کے پاس دینے کو کچھ نہیں بچا ہے۔ ملک کے سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنے والے کراچی کے ہمارے ایک دوست رحمت ولی نے حکومت کو ایک تجویز دی ہے۔

 

انہوں نے صدر، وزیراعظم، چاروں صوبوں کے گورنرز، دو صوبوں کے نگران اور دو صوبوں کے مستقل وزرائے اعلیٰ، الیکشن کمیشن، سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کے نام خطوط بھیجے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ حکومت عام انتخابات کرانے میں وسائل کی کمی کا جواز پیش کر رہی ہے سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات بھی اسی بنیاد پر معرض التواء کا شکار ہیں۔الیکشن کمیشن نے عدالت کے سامنے اقرار کیا تھا کہ وہ انتخابات کرانے کے لئے مکمل طورپر تیار ہے مگر مسئلہ وہی وسائل کی دستیابی کا درپیش ہے۔ فنڈز کی عدم دستیابی کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ اعتمادکا فقدان ہے اور جب تک تمام سٹیک ہولڈرز کا اعتماد بحال نہ ہو۔ انتخابات کے نتائج پر سوالات اٹھتے رہیں گے حالانکہ ہمارے ہاں یہ کوئی نئی بات نہیں۔ملک میں پہلی بار 1962میں بی ڈی ممبران کے ذریعے جو صدارتی انتخابات کرائے گئے۔ ان پر بھی بہت زیادہ اعتراضات ہوئے۔ 1971کے انتخابات پر اب تک کسی پارٹی نے کوئی شدید اعتراض نہیں کیا۔ تاہم وہ شفاف انتخابات بھی ہمارے راس نہیں آئے اور ملک دو لخت ہوگیا۔

 

1977کے انتخابات کو دھاندلی کا الزام لگاکر متنازعہ بنایاگیا جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہی ختم نہیں ہوئی۔ بلکہ پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو بھی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ جنرل ضیا کے دور میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے اس پر تمام سیاسی جماعتیں معترض تھیں۔1988سے لے کر 1997تک چار مرتبہ انتخابات ہوئے اور چاروں سے سیاسی جماعتیں خوش نہیں تھیں۔جنرل مشرف نے اپنے دور میں جو انتخابات کروائے۔اس پر بھی بڑی سیاسی جماعتیں اعتراض کرتی رہیں۔2008سے اب تک تین مرتبہ عام انتخابات ہوچکے ہیں اوران تمام انتخابات میں ہارنے والوں نے دھاندلی کے الزامات لگائے۔ رحمت ولی نے حکومت کو یہ تجویز پیش کی ہے کہ عام انتخابات کرانے کے لئے اقوام متحدہ سے درخواست کی جائے۔

 

عالمی ادارہ انتخابات کے لئے جمہوریت پسند ملکوں سے وسائل بھی اکھٹا کرے گا اور اپنی نگرانی میں انتخابات بھی کروائے گا۔ اور ان کے نتائج پر کوئی انگلی نہیں اٹھاسکے گا۔ تجویز تو اچھی ہے لیکن اقوام متحدہ کی 78سالہ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ عالمی ادارے نے کسی مفلوک الحال ملک میں اپنے وسائل سے جمہوری ادارے قائم کئے ہوں۔حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے جو ممالک خود کو جمہوریت کے چمپیئن کہلواتے ہیں۔وہ صرف اپنے ملک میں جمہوریت کو پسند کرتے ہیں دوسرے ملکوں میں جمہوریت سے ان کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔وہ چاہتے ہیں کہ ترقی پذیرملکوں میں اختیارات کسی فرد واحد کے ہاتھ میں رہیں تاکہ جو بات منوانی ہو۔تو ایک ہی بندے سے رابطہ ہوسکے اسے لالچ دے کر یا ڈرا دھمکا کربھی کام نکالا جاسکتا ہے۔

 

کسی جمہوری ملک سے اپنی بات منوانا کافی مشکل ہوتا ہے۔ بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مقبوضہ کشمیر میں استصواب رائے کے لئے تین قراردادیں منظور کروائی ہیں مگر 70سال گذرنے کے باوجود ان قراردادوں پر عمل درآمد نہیں کرایا جاسکا۔حکومت کو غیرجانبدارنہ انتخابات کی اس نئی تجویز پر غور ضرور کرنا چاہئے۔ہوسکتا ہے کہ یہ قدم ملک میں حقیقی جمہوریت لانے کا ہی ذریعہ بن جائے۔


شیئر کریں: