Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چترال کے مختلف مقامات کی لوک تاریخ (قسط اول):  پروفیسر اسرار الدین

Posted on
شیئر کریں:

چترال کے مختلف مقامات کی لوک تاریخ (قسط اول):  پروفیسر اسرار الدین

(نوٹ) علاقہ چترال کے مختلف مقامات کی تحقیقی سروے کے دوران مقامی لوگوں نے بعض مقامات کی تاریخ کے بارے میں کچھ معلومات بہم پہنچائی تھیں۔ان کے بنیاد پر نیز بعض کتابوں کے حوالے سے یہ مضمون (جوپوری زیر تصنیف کتاب کا حصہ ہے)آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔اس سلسلے میں اگر قارئین کچھ اضافہ یاترمیم کرنا چاہیں تو خیر مقدم کروں گا۔(میر ا واٹس اپ نمبر03449700090)

(1) بروغیل۔۔۔

یہ چترال کے شمال مشرقی کونے پرواقع ایک اہم علاقہ ہے۔جو جغرافیائی طورپر پامیر (بام دنیا) کے خطے کا حصہ ہے اور سیاسی طورپر چترال کے حدود میں شامل ہے۔یہ تمام علاقہ گیارہ ہزار فٹ سے اونچا ہے۔اس کے شمال میں قرامبر کا خوبصورت جھیل ہے۔اور شمال مشرق میں چیانتار شایوز (گلیشیر)ہے جو25میل لمباہے۔اور قطب شمالی سے باہر ایک طویل ترین گلیشیر تصور کیاجاتاہے۔یہ دریائے چترال کا منبع بھی ہے۔بروغیل کے مغرب میں واخان کا علاقہ ہے جو افغانستان کا حصہ ہے۔بروغیل اور واخان کے درمیان بروغیل اور دوراہ کے درے مشہور ہیں۔جو تاریخ میں تاجکستان اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک اور چترال اوربرصغیر کے درمیان رابطے کے اہم زرائع رہے ہیں اس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں حتمی طورپر کچھ معلوم نہیں البتہ قیاس کیا جاتا ہے۔کہ بروغیل یا بروغول دوالفاظ کامرکب ہے۔برادرگول(یا گوڑ) کا فارسی میں ہراونچے مقام کی طرف سے اشارہ کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔گوڑ اور گول کھوار زبان میں بالترتیب کھائی اور نالہ کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔بروغیل ایک ہموارمیدان ہے اور دریائے چترال اسمیں کاٹ کے کھائی یانالہ جیسی گذرگاہ بناکرگذرتا ہے۔اسلئے اس کانام اونچی کھائی (بڑاگوڑ) یا اونچا نالہ (بڑاگول) پڑگیاہوگا۔جسکی بگڑی شکل بروغیل ہے۔بتایا جاتا ہے کہ گذشتہ صدی کے ابتدائی دوعشروں تک یہ علاقہ غیرآباد تھا اور وخک لوگ چترال کی ریاست کو ٹیکس ادا کرکے اپنے مال مویشی یہاں چرانے لایا کرتے تھے۔بعد میں ان میں سے بعض لوگ شہزادہ ناصر الملک کی مستوج کے علاقے میں گورنری کے زمانے میں یہاں آکر مستقل طورپر آباد ہوئے۔کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں افغانستان میں ایک رواج تھا جسے پھوشکی کہا جاتا تھا۔اسکے مطابق لوگوں کو زبردستی بھرتی کرکے تین سالوں تک ان سے بیگار لیاجاتا تھا۔یہ بعض لوگ اس سے تنگ آکر یہاں آنے پر مجبور ہوگئے تھے اور بادشاہ چترال کی اجازت سے یہاں آباد ہوئے۔وخک کے علاوہ کچھ خاندان تاجک اور کرغیز بھی یہاں آباد ہیں۔تاجک 1939ء میں چینی علاقہ تاش قرغن سے آئے تھے۔پہلے ہنزہ میں بعد میں یہاں سکونت اختیار کی اورکرغیز اندیجان ازبکستان کے روسی علاقے سے1945میں آئے۔پہلے یہ پامیر صغیر(Little Pamir) میں بعد میں یہاں آکے رہنے لگے(بمطابق ڈاکٹر فیضی)۔

وادی یارخون۔۔

یارخون۔۔۔۔یارخون کی وجہ تسمیہ کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ قدیم زمانے میں یارخون (اخوند)نامی ایک آدمی ترکستان سے آیا تھا۔اس نے اس علاقے کے مختلف مقامات کو آباد کیا تھا۔بعد میں جب سومالک نے ان علاقوں پر قبضہ کیا تو یارخون کو بھی اپنی حکومت میں شامل کیاتھا۔وخان سے یارخون میں ایک درہ بھی نکلتا ہے جسے کان خون درہ کہتے ہیں اخون اس درے سے آیا ہوگا اس لئے اسکا نام اسکی مناسبت سے آن خون پڑگیا ہوگا جو بعد میں کان خون بن گیا ہو۔یہ درہ بہت زیادہ دشوار گذار ہے۔اور ایوالنچوں کی وجہ سے نقصان بھی پہنچاتا رہاہے۔ممکن ہے کہ اس حوالے سے اسکا نام آن خون ہو۔یعنی خونی درہ جو آن خون بن گیا ہو،ویسے یارخون کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ پرُانے زمانے میں کسی نے اپنے ساتھی کو قتل کیا تھا۔جسکی وجہ یارخون یعنی یارکاخون پڑگیا۔

لشٹ یارخون۔۔شمال سے آتے ہوئے لشٹ یارخون اہم مقام ہے۔یہ تین دیہات پرمشتمل ہے۔یعنی لشٹ۔غیراروم اور انکپ۔لشٹ لفظ فارسی کے لفظ دشت سے نکلا ہے یہ مقام چونکہ ہموار میدان ہے اسلئے اس کانام لشٹ یادشت پڑگیا ہوگا۔یہاں دو قبیلے آباد ہیں جن کے نام ضلے(Zilla)اوربورے (Boora)ہیں۔ضلے قدیم زمانے میں یعنی رئیس کے دور سے پہلے سریُقل سے آئے تھے۔یہ قبیلہ آگے یارخون وادی کے میراگرام تک پھیلا ہوا ہے۔اندازہ ہے کہ اسی قبلے نے پہلے یہاں آکے ان علاقوں کوآباد کیا تھا۔اور ان کے بعد بورے قبیلہ کسی زمانے میں وخان سے آکے یہاں آباد ہوئے تھے۔یہ بھی پاور گاؤں تک پھیلے ہوئے ہیں۔یہ وخان کے قاضی خیل قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اورمعلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے پھیلاو کے سلسلے میں آئے تھے۔

شوئیست(Suist)۔لشٹ کے بعد شوئیست کا گاؤں آتا ہے۔یہ چھوٹا ساخوبصورت گاؤں ہے۔اس گاؤں کا ذکر مشہور ماہر اثار قدیمہ سرآرل سٹائین نے اپنی کتاب سرانڈیا میں یوں کیا ہے۔
”چینی ریکارڈوں میں ایک نام اشی یوشیپہ تو(Ashe-yu-shisto)آیا ہے۔جو غالباًشوئیست ہوگا۔یہ پرانے زمانے میں ایک اہم مقام تھا ممکن ہے بعد میں گلیشیر ٹوٹنے اور دریاوں کی طغیانی کی وجہ تباہ ہوگیا ہوگا۔

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شوئیست ایک قدیمی گاؤں رہا ہوگا۔یہاں ضلے،بورے،واروغونے اوریوم گانے قبیلے آباد ہیں۔واردغونے اور یوم گانے قدیمی قبیلے ہیں۔اور پُرانے زمانے میں وارغون اور یوم گان بدخشان یا تاجکستان سے آئے تھے۔دربند یارخون۔۔۔یارخون وادی میں ایک اہم مقام دربند آتا ہے جسکی تاریخی اہمیت ہے۔تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ 1868میں مہتر امان الملک کے زمانے میں بدخشان کے میر محمود شاہ اور چترال کے درمیان جنگ ہوئی تھی۔اس جنگ میں میر بدخشان زبردست تیاری کے ساتھ اپنے ساتھ12ہزار ترک،ازبک،بدخشی اور افغانی افواج لے کے توپوں اور بندوقوں سے لیس ہوکے چترال کی اینٹ سے بجانے کی بُری نیت سے حملہ آور ہواتھا۔لیکن اسطرف چترال کے لوگ بھی اللہ تعالےٰ کی مدد کے سہارے اپنے وطن کے لئے جان کی بازی لگانے کے لئے تیارمقابلے کے لئے ڈٹ گئے تھے اور ایسی زبردست جنگی حکمت عملی اختیار کی۔امیرخود زخمی ہوکے اور کئی بدخشی فوجیوں کی ہلاکت کا باعث بن کے اور اپنے توپوں اور دوسرے جنگی سامان کوچھوڑ کے واپس بھاگنا پڑا۔اور بورغیل کے راستے اپنے ملک کو چلے گئے۔اس جنگ کو بہترین پہاڑی جنگی حکمت عملی (Mountain Warfare) کے مثال کے طورپر پیش کیا جاتا ہے۔دربند کے حصار میں اونچے پہاڑوں پر چترالیوں کے نصب کردہ کئی برجیوں اور مورچوں کے نشان اب تک محفوظ ہیں جواثاریات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے اہم مشغلہ پیش کرسکتے ہیں۔

میراگرام۔۔۔گرام ہندی یا سنسکرت لفظ ہے جوگاؤں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔چترال میں کئی گاؤں کے ساتھ گرام کا لاحقہ لگاہوا ہے۔اور ان میں سے زیادہ ترقدیم دور سے تعلق رکھتے ہیں۔اگر چہ بعض گاؤں کے ساتھ بعد کے زمانوں میں بھی یہ لاحقہ لگایا گیا ہے۔یہ لفظ چترالی یا کھوار سوشل سٹ اپ کا بھی حصہ بن گیا ہے۔مثلاًگرام بیشی یا ہمسایہ پن یاگرام جوکسی بستی کے حدود کوبھی ظاہر کرتا ہے۔میراگرام کانام کیسے پڑگیا۔اسکے بارے کچھ کہنا مشکل ہے۔البتہ بتایا جاتا ہے کہ اس علاقے کے دوسرے دیہات کی طرح یہ بھی رئیس دور سے پہلے آباد تھا۔یہاں یومگانی قبیلہ آباد ہے جوپُرانے زمانے میں یومگان(بدخشان سے آئے تھے۔اور اس جگے کو آباد کیاتھا۔یہاں چھیرموژان نام کے کچھ قبیلے آباد ہیں جن کی اصلیت کاپتہ نہیں۔عموماًاس طرح کے لوگ اپنے آپ کو بوم کی یعنی اصلی باشندے بتاتے ہیں۔ان کے علاوہ زوندرے،رضا،شاوخوثئے اورسید چترال کے اندر بعد کے زمانوں میں آئے ہوئے قبیلے ہیں میراگرام کے وسطی ایشیاء سے رابطے کے حوالے سے سرارل سٹائین مشہور ارکیالوجسٹ نے وہاں حاکم عبیداللہ خان کے مکان کا مشاہدہ کرکے اپنے تاثرات یوں بیان کرتے ہیں۔”مجھے ایسا لگا گویا یہ گھر مقامی دیدہ زیب طرز تعمیر اور گھریلو فنکاری کا ایک چھوٹا سا نجی عجائب گھر ہے۔اسکے بعد برآمدے کے ستونوں اور گھر کے دوسرے حصوں میں لکڑی پر کندہ کاری کے کاموں کا مقابلہ گندھارا ختن،لوپ نار(وسطی ایشیاء) اور ترکستان میں اپنے مشاہدات سے کرتے ہیں اور ذیل نتائج اخذ کرتے ہیں۔

1۔لکڑی کے ستونوں پر کام اور کندہ کاری گندھاراآرٹ اور ختن کے لکڑی کے کام سے مشابہت رکھتے ہیں۔

2۔چاربڑے ستونوں پردیدہ زیب ابھروان ایسے نقوش ہیں جو کہ کلاسیکی کو اکنئتموس پودوں کے پتوں سے ملتی جلتی ہیں۔(نوٹ:بحیرہ روم کے علاقے میں پودوں کی ہروہ قسم جس کے بڑے خار دارپتے ہوتے ہیں وہ کواکنتھوس کہلاتے ہیں۔یہ سجاوٹ کا اندازہ ہے جسے یونانی اور رومی طرز تعمیر میں استعمال کرتے ہیں۔راقم)۔یہ ڈائزئن (نمونہ) لوپ نار(وسطی ایشیاء میں سٹائین کو بعد میں ملے تھے۔

3۔لکڑی کے تختوں پر کنول کے پھولوں کی کندہ کاری بھی عام طورپر کی گئی تھی۔جوگندھارا فن تعمیر کی خاص نشانی ہے۔

4۔ان کے علاوہ نمونے کے طورپر پتوں کے نقش یانیم کھلے کنول کے پھولوں کے نقوش استعمال کئے گئے تھے جو پُرانے ترکستان میں لکڑی پر کندہ کاری کے خاص نمونے ہیں۔

5،ستونوں پرنقش ونگار میں چار پتے والے ایسے پھولوں کا نقش بھی دیکھا۔چونیا(Niya)اورڈوموکو(Domoko) میں آثارقدیمہ کی کھدائی کے دوران لکڑی کے کندہ کاری کے نشانی کے طورپر ملے ہیں۔اور جس سے یہ ثابت ہواکہ یہ بدھوں کے زمانے کے ختن(تین صدی عیسوی اور بعد کے زمانوں) میں مقبول سجاوٹ کے لئے استعمال ہونے والے نمونے ہوتے تھے۔یہ ڈیزائن متمطیل جگہوں کوپُرکرنے کے لئے استعمال ہوتے تھے۔اور گندھارا آرٹ میں یونانی بدھ مت مشائیل سے ماخوذ ہیں۔

6۔وہ قالین پر ڈائزائن اور مختلف برتنو کے نمونو کا تعلق سواستیکا،یونانی نقش کاری اور ختن اور لوپ نار سے جوڑتے رہے۔

برپ۔۔۔یہ جملشٹ،تھورژال،دہ،راہیھنی،کوچ اور ناسوکوچ دیہات پرمشتمل ہے۔یہاں اہم قبیلے سیدان،رضا،زوندرے،رستمے اور لاوے ہیں۔لاؤے اپنے آپ کو قدیمی باشندے تصور کرتے ہیں۔اور رستمے بدخشان سے تقریباً دس پشت پہلے(مقامی روایت کے مطابق)آکر آباد ہوئے تھے۔سیدان شاہ خیر اللہ کے وقت سنوغر سے آئے تھے۔بتایا جاتا ہے یہ گاؤں شاہ خوشامدکے زمانے سے آباد ہے یہاں پُرانے زمانے کا ایک کھنڈر ہے جسے نوغور ڈوک کانام دیا جاتا ہے۔سرارل سٹائین وفادار خان دیوان بیگی کے حوالے سے بتاتا ہے کہ یہ قلمق(چینی)دور کااہم آثار قدیمہ ہے۔اس جگے کااُنہوں نے تفصیل سے مشاہدہ کیاتھا۔اور بتاتے ہیں کہ جس ٹیلے پر وہ قلعہ واقع تھا اسکی اونچائی مشرق کی طرف زمین سے تقریباًچونتیس(34)فٹ اور مغرب کی طرف دریا کا ڈھلان ہے جہاں اونچائی زیادہ ہے ٹیلے کے اوپر مستطیل شکل کی جوقلعہ بندی کی گئی ہے۔مشرقی اور مغربی اطراف جوشمال مشرق اور جنوب مغرب میں واقع ہیں،ان کی لمبائی 103اور133فٹ ہیں دیواروں کی بنیادیں غیرکٹی ہوئی پتھروں کی سلوں پراٹھائی گئی ہیں۔

مشرق کی طرف دیوار کی تعمیر نوفٹ کی اونچائی تک صاف نظرآتی ہے۔البتہ یہ جگہ جگہ ٹوٹی ہوئی ہے۔اور ملبے کے نیچے دبی ہوئی ہے۔جہاں تک بنیاد کا تعلق ہے مشرق کی طرف 3فٹ تک اور مغربی طرف 6فٹ تک نظرآرہی تھی،دیواروں کی چوڑائی معلوم کرنے کے لئے کافی ملبہ ہٹانا پڑتا تھا۔جو اس وقت ممکن نہیں تھا جو اینٹیں استعمال کی گئی تھیں وہ اوسطاً20×18انچ کی تھیں اور چوڑائی ساڑھے تین انچ سے ساڑھے پانچ انچ تک تھیں۔اینٹوں میں بہت سارے کنگر،چھوٹے پتھر اور مٹی کے برتنوں کے ٹکڑے شامل تھے،ٹلے اور اوپر کا حصہ مکمل ہموار نہیں ہے۔اور جگہ جگہ گری ہوئی دیواروں اور اندرونی تعمیر عمارتوں کے ملبوں سے بھرا ہوا ہے۔اس لئے زمین کے سطح پرکسی قسم کا نقشہ یاخاکہ معلوم کرنا مشکل ہے۔بہرحال تباہ شدہ کا سب سے زیادہ محفوظ حصہ درمیان میں موجود تھا۔یہ دھوپ میں خشک کئے انیٹوں کی ایک دیوار تھی جسکی چوڑائی دوفٹ اور آٹھ انچ اور لمبائی اٹھارہ فٹ تھی ان کی اونچائی آٹھ فٹ تھی۔اُسکی اینٹیں چار انچ موٹی اور12×14انچ اوسطاً تھیں۔مٹی میں بھیڑ کا گوبر ملاہوا تھا۔یہ گویا اس زمانے میں اینٹ بنانے کا ایک طریقہ تھا جو آج کل مروج نہیں ٹیلے کے درمیان ایک بڑا صندق بھی بنا ہوا تھا جوکہ بارہ فٹ گہرا تھا۔ایسا لگتا تھا کہ مقامی لوگوں نے اسے استعمال کئے یہاں سے مٹی نکالنے کے لئے یہ کھودا ہوگا جوکہ وہ مختلف کام کے لئے استعمال کرتے ہوں گے۔

حویلی کے دیواروں کے علاوہ جن چیزوں کی پہچان ہوسکتی ہے وہ ایک چھوٹا سا مستطیل شکل کا برج ہے۔جو مشرق کی طرف ذرا درمیان میں واقع ہے۔اسکے علاوہ ایک گول مینار ہے جو جنوب مغربی کونے پر ہے جسکی بنیادیں اینٹوں کی ہیں۔اس کا محیط 27فٹ ہے۔مٹی کے برتن کے تکڑے ٹیلے کے اوپراور اردگرد بکھرے ہوئے بہت ملتے ہیں۔جن کا رنگ اوپرسے چمکدار اور سرخ ہے۔جنہیں ہلکا سا صیقل کرکے چمکایا گیا ہے۔اندر سے یہ ٹکڑے ہلکا بادامی یا بھورے رنگ کے ہیں۔گاؤں والوں نے بتایا کہ وقتاًفوقتاً یہاں سے تسبیح کے دانے یادھات سے بنی ہوئی نیزے کے بھال ملتے رہے ہیں۔یہ قلعہ مقامی روایات کے مطابق چینیوں کاقلمق دور سے تعلق رکھتا ہے۔بڑی سائز کی اینٹوں کو دیکھ کر جنکی مانندارل سٹائین نے کاشغر میں بدھ مت کے زمانے کے کھنڈرات میں دیکھی تھی اور خاص برتنوں کے ٹکڑے ملاکر جس طرح یہ سخت کئے گئے تھے۔ان سے اندازہ لگایا کہ یہ اٹھارویں صدی کے وسط میں تعمیر کیا گیا ہوگا۔ایسے اشیاء جن سے صحیح تاریخ کا اندازہ لگایا جاسکے۔مثلاًپُرانے سکے یادھات کی اشیاء۔ان کے ان علاقوں میں غیرموجودگی کی وجہ سے زبانوں کا تعین مشکل ہوجاتا ہے۔یادرہے سٹائین نے قلعے کے صرف اوپر کاحصہ دیکھا جس سے یہ اندازہ لگایا کہ یہ 18ویں صدی کی تعمیر ہے۔لیکن پُرانے قلعوں کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ ان کی تعمیر مختلف زمانوں اور مختلف مراحل میں ہوتی رہی ہے،وقت کے ساتھ پُرانے حصے اندر دب جاتے ہیں اور ان کے اوپر نئی تعمیرات بنتی ہیں۔سٹائین کے ساتھ وقت نہیں تھا کہ وہ زیادہ کھودکے پُرانے حصے ملاحظہ کرتے۔لیکن افسوس ہے کہ بعد میں اس اہم تاریخی اثاثے کوختم کردیا گیااور اسکی جگہ سکول تعمیر کیا گیا۔سکول کہیں اور بھی بنایا جاسکتا تھا۔لیکن اس اہم تاریخی یادگار سے ہمیشہ کے لئے محرومی افسوسناک بات ہے۔

(باقی ایندہ)


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
71597