Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

انسان کی تخلیق اور اللہ رب العزت کے مہربانیاں – تحریر صوفی محمد اسلم

Posted on
شیئر کریں:

انسان کی تخلیق اور اللہ رب العزت کے مہربانیاں – تحریر صوفی محمد اسلم

اللہ رب العزت نے انسان کو ان گینت نعمتوں ، انعامات و اکرام سے نوازا ہے جسے شمار کرنا انسان کی بس کی بات نہیں۔ اللہ رب العزت کیلئے کسی چیز کی تخلیق بیشک کوئی مشکل کام نہیں جو اللہ چاہتا ہے تو وہ فوراً ہوجاتا ہے۔ مگر تخلیق انسان کا معاملہ ایسا نہیں بلکہ تخلیق آدم کئی مراحل سے گزرا۔  ایک حدیث کا مفہوم ہے کائنات کی تخلیق سےہزاروں سال پہلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نور پیدا کیا گیا تھا ۔پھر فرشتوں سے انسان کی پیدائش سے پہلے اس کی بشارت سنانا۔ زمین سے مٹی حاصل کرنا ، کئی سال مٹی گودا بنانا کر چھوڑنا، انسان جسد خاکی بنانا۔ اس میں روح پھونکنا ان مراحل میں پتا نہیں کتنے عرصے گزر گئے ہونگے۔ اسی طرح کئی مراحل طے کرنے کے بعد انسان کی تخلیق مکمل ہوئی ہر مراحل میں اللہ رب العزت  نے انسان کو  اپنی اکرام اور مہربانیاں نوازاتا رہا۔
’اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے عرض کی۔کیا آپ زمین میں اُسے بنائیں گے جو اس میں فساد کرے گااور خون بہائے گا۔ ہم حمد و ثناء کے ساتھ تیری تسبیح و تقدیس بیان کرتے ہیں، فرمایا:جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ ‘‘البقرہ30۔
’جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا: میں مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں۔ جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں، تواس کے سامنے سجدے میں گرجانا۔ ‘‘(صٓ: 71۔72)
  پھر خلافت پر فائزفرماکراعلیٰ منصب عطاء کیا۔  سیدنا آدم علیہ السلام  کی خلافت کا اعلان کیا گیا اسے حکمرانی بخشی گئی۔ تو یہ سنتے ہی ملائکہ نے اللہ رب العزت کے حضور اس خدشہ کا اظہار کیا کہ یہ ایسی مخلوق ہے کہ جو زمین میں قتل و غارت اور دنگا فساد کرے گا۔ جب کہ ہم آپ کے لائق تیری حمد وستائش کرتے ہیں۔ مگر اللہ رب العزت نے ان کا ایک نہ سنا بلکہ کہا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ۔اس لئے جب میں پوری طرح انسان کو پیدا کیا اس میں روح پھونک دیا تو اس کے سامنے سجدے کرنا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے آخر یہ فرشتے ایسے کیوں کہتے رہے کہ یہ انسان دنیا میں فساد برپا کرینگے۔سرکشی کرینگے حلانکہ وہ سب جانتے تھے کہ کائنات میں ہزاروں لاکھوں اور بھی مخلوق تھے، انکے بارے میں کبھی ایسا نہیں کہا۔ اللہ رب العزت انسان سے اتنی محبت کی کیا وجہ تھی کہ انسان کی تعریف کیا گیا، انعامات کے لامحدود سلسلے شروع کیے، اپنے سب سے پاک مخلوق فرشتوں سے انسان کے سامنے سجدہ کروایا گیا ۔ ابلیس جسے اس وقت فرشتوں کا سردار کہا جاتا تھا، اسے انسان سے بعض اور حسد کی کیا وجہ تھا۔ ابلیس کو اللہ تعالی کی رحمت سے  کیوں محروم ہونا پڑا۔
فرشتے یہ جانتے تھے کہ جو مقام،ازادی اور اختیارات انسان کو دیا جارہا ہے وہ غیر معمولی ہیں۔ یہ سب جانے کیلئے انسان کے تخلیق اور بعد میں اللہ رب العزت کی طرف سے نعمتوں اور زمہ داریوں کا جائزہ لینا ہوگا ۔
انسان کو جسمانی طور پر کمزور پیدا کیا گیا اور اس کمزوری کے باوجود انسان کو اللہ ار العزت نے بہت سارے صلاحیتوں سے نوازا ہے اور یہی انسان کے ہتھیار تھے۔ان صلاحیتوں میں قوت گویائی، قوت بینائی، قوت شامہ، قوت بصارت، سوچنے سمجھنے،  تخلیق ،تدبیر اور تسخیر کرنے کی ان گینت صلاحیتوں سے نوازا گیا جیسا کہ احساس،ادراک، حس، شعور سے نوازا گیا۔ یہ اوصاف انسان سے پہلےجمیع صورت میں کسی مخلوق میں موجود نہ تھے۔
مزید یہ کہ انسان کے فطرت میں اللہ تعالی نے بہت سارے خوبیاں شامل کیا۔ ان خوبیوں میں رحم دلی، مہربانی،ازادی پسندی،غیرت، شجاعت، بہادری،  اعتدال پسندی،انصاف پسندی، شرفت، عاجزی، پیار و محبت، شرم حیا، ہمدردی، غریب پروری وغیرہ اس جسد خاکی کے فطرت میں یکجا کیا۔
 اسی فطرت میں بہت سے کمزوریاں بھی تھے جیسا کہ عصہ،بھوک، آنا، نفسانی و جسمانی خواہشات، جزبات، حکمرانی، جبر، ضد،غرور، نفرت، تشدد پسندی، پیٹ پروری، اولادومال کی محبت، نفاست و نزاکت پسندی ، عیش و عشرت پسندی، ارام پسندی،نیند وغیرہ جتنے خوابیاں فطرت میں تھے اتنی ہی کمزوریاں بھی تھے۔ اسی طرح اللہ رب العزت نے دونوں خوبیوں اور کمزوریوں کو ایک ہی جسد خاکی میں ڈال دیا اور انسان کو صرف خوبیوں کو چنے اور کمزوریوں پر قابو پانے کا حکم ہوا۔
یہی نہیں  بلکہ اللہ تعالی نے ان اوصاف و خواہشات کے ساتھ انسان کو اختیارات دیا گیا ۔ مخلوقات خدا سے کام لینے کا اختیار، انہیں بطور سواری،خوراک استعمال کرنے کا اختیار، جسمانی و زہنی سکون کیلئے استعمال کے اختیار، زمین، پانی، ہوا اور اس میں پرورش پانے والے ہر مخلوق کو اللہ تعالی نے  انسان کے تابع بنایا۔  سواری کیلئے مضبوط ترین جانوروں کو انسان کے مطیع بنایا۔اتنے سارے اختیارات کے ساتھ ظلم ،تشدد سے پرہیز ،کسی کو زہنی و جسمانی ازیت دینے سے باز رہنے کا حکم ہوا۔
کھانےکیلئے ہزاروں اقسام کے خوراک کا بندوبست کیا گیا، میوے، سبزیاں، گوشت، دودھ، پانی لاتعداد نعمتوں سے نوازا گیا۔ ان سارے نعمتوں کو استعمال کرنے اور ضایع کرنے سے منع کیا گیا۔ اپنے حصے سے غریبوں، مسکینوں ،یتیموں ،رشتہ داروں کیلئے حصہ دینے کا حکم دیا ۔ کسی اور کا حق چھین لینے منع کیا گیا۔ بعض چیزوں حرام قرار دیکر دور رہنے کا حکم دیا۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان کو ازاد پیدا کیا گیا ہر پابندی سے آزاد۔ غلط و صحیح سب کچھ کرنے کی جسمانی ازادی دی ۔ انسان کو کسی بھی مخلوق کے تابعداری کا پابند نہیں کیا۔ انسان کو قابو کرنے کا کوئی ڈائریکٹ انتظام بھی نہیں کیا۔کوئی ڈائریکٹ پابندی نہیں کہ کوئی زور زبردستی اسے روک سکے سوا اللہ کے خوف اور محبت کے۔  ازادی کے ساتھ ساتھ چند حدودات مختص کیا کہ اس سے اگے مت جانا۔ نہ کسی اور کی ازادی چھین لینے کی اجازت دی۔
پھر اللہ تعالی نے اپنے فرشتوں کو حکم دیا کہ زمین سے مٹی لے آئو۔ فرشتے زمین سے مٹی لے آئے اللہ تعالی نے اپنی قدرت سے اس مٹی سے آدم  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جسم مبارک تیار کیا۔
ابلیس انسانی جسم کو دیکھنے ایا اسے دیکھنے کے بعد اس کے دل میں حسد اور عصہ تھا کہ یہ کیا ایک بدبودار چپکتے گارے  مٹی سے تیار ہونے والے کو ہم سے افضل قرار دیا گیا۔ اسے اتنے انعامات،اختیارات اور اتنا بلمقام دیا۔ اس وقت اسکے دل میں حسد اور بعض پیدا ہوا۔ جب آدم خاکی تیار ہوا اللہ تعالی نے  اس میں روح پھونک دیا۔ آدم علیہ السلام نے اللہ تعالی تعریف شروغ کیا اور اللہ تعالی کے عطاء کردہ علم سے فرشتوں کے سوالات کے جوابات دینے لگا۔
اللہ تعالی نے اپنے منشا کے مطابق فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ سلام کے سامنے سجدہ کرو۔ ابلیس کے حسد، بغض اور عصے کا انتہا ہو گیا۔ اس حکم کے ساتھ ساتھ سارے فرشتے سجدے پر چلے گے۔ سوائے ابلیس کے، اس کے انکاری ہونے پر اللہ نے اس پر لعنت کیا اور اسے بے دخل کیا گیا۔ اس وقت ابلیس کو فرشتوں کا سردار کہا جاتا تھا۔ مگر صرف اللہ تعالی نے انسان کی محبت میں اسے بھی سزا دیا ۔ یہ بھی انسان کیلئے بحیثیت خاکی کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔
فرشتوں کا خدشہ تھا کہ یہ اتنا کمزور انسان کو اتنے نعمتیں، اختیارات،خواہشات اور ازادی جمیع صورت دیا گیا ہے۔ یہ اپنے خواہشات اور ازادی کے سمندر میں گم ہونگے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات و حدودات بھول جائینگے اور  قتل عام کرینگے۔ اگر انسانی زہن سے سوچا جائے تو یہ خدشہ کسی حد تک درست بھی ہے۔ انسان کو راہ راست سے نکلنے سے باز رکھنے والے صرف اللہ تعالی کی خاص عنایت اور پیغمبراں اسلام اور کتانوں کی صورت میں ہدایات تھے۔ بہت سے حقائق انسان سے پردے میں رکھا گیا جیساکہ اللہ تعالی کے وجود، اخیرت کے سزاجزا، جنت ،جہنم سب کو انسانوں دیکھ لیتا تو انسان سرکشی سے باز رہتے اور عالم ارواح کا عہد بھی اللہ تعالی نے انسان سے بھولا دیا۔
 مگر انسان کو اگر بلند مرتبہ دیا گیا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ ان خواہشات،اختیارات اور ازادی کے باوجود اللہ تعالیٰ کا مرتب کردہ اصولوں اور حدودات کی پاسداری کرے۔ اللہ کے فرمانبردار اور اطاعت کرے گا تو اسے وہ مقام حاصل ہوگا۔ بے شک اللہ بہتر جانے والا ہے۔انسان کے علاوہ سارے مخلوقات کے معاملات اور اختیارات محدود ہیں اسی طرح انکے عبادات اور زمہ داریاں بھی محدود ہیں۔ اسی طرح انسان کے معاملات اور اختیارات لامتناہی ہیں اسی طرح انکے خواہشات اور ازمائش بھی زیادہ مشکل ہیں۔ اللہ چاہتا ہے کہ انسان اپنے خواہشات میرے محبت اور خوف سے چھوڑے نہ کہ کسی اور کے دبائو میں اکر اسلئے ہر قسم کے دبائو سے انسان ازاد رکھا۔
یہ تھا اللہ تعالی کی انسانوں سے محبت اور اپنے تخلیق پر ناز۔ اللہ تعالی نے انسان کو اپنے سارے مخلوقات سے برتر کہا اسے اشرف المخلوقات کا خطاب دیا ۔ یہ کوئی معمولی خطاب نہیں ہے، جو ہر کسی کو مل سکے۔ مقدس فرشتوں کو بھی نہیں ملا جو ہمیشہ سے اللہ تعالی کے سامنے سر بسجود رہتے تھے ۔
اللہ تعالی کے مہربانیاں کم نہیں ہوئے۔ اللہ تعالی نے کھبی انسان سے سختی سے پیش نہیں ایا۔ ہمیشہ اسے رحم و کرم سے پیش ایا۔ انسانی تعلیم و تربیت کیلئے انتظامات کیے ، اپنے بہترین بندوں کو انسان کی تربیت کیلئے مبعوث کیا، اپنے پیعامات انسانوں تک پہنچانے کا بندوبست کیا۔ راہ راست پر انے کیلئے ہزاروں دروازوں کھول دیے۔ مواقع دیے۔ بخشش کے دروازے کھلا رکھا۔ اپنی طرف بلاتا رہا ہے۔ یہاں تک کہہ دیا جب تم میری طرف چل کے آئو گے تو میں دوڑکے آئونگا۔
 انسانوں سے اللہ رب العزت کی محبت لامتناہی ہے ، اب انسانوں کو بھی چاہئے کہ غیرت کا مظاہرہ کرے۔ اشرفالمخلوقات ہونے کا ثبوت دے۔ اپنی وجود میں شامل نعمتوں کا شکر اداکرتے ہوئے اللہ کے سامنے محبت اور نم آنکھوں سے سربسجود ہو۔ سرکشی ، مادہ،خواہشات، نفس پرستی کے دلدل سے نکل کر رب کائنات کی طرف متوجہ ہو۔ بیشک اللہ محبت کرنے والا اور بحشنے والا ہے۔
وما علینا الاالبلاغ

شیئر کریں: