Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

صدائے جرس – محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

صدائے جرس – محمد شریف شکیب

ترک صدر رجب طیب اردگان نے پچھلے دنوں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ہلاکو خان کا ایک واقعہ سنایا۔ کہتے ہیں کہ جب ہلاکو خان نے بغداد کو تاراج کیا تو وہاں کی تمام مساجد اور لائبریریوں کو مسمار کرادیا۔ شہر میں چار لاکھ افراد کو تہہ تیغ کردیا۔اور بغداد کی ساری دولت، مال و زر اور جواہرات لوٹنے کے بعد وہاں کے سب سے بڑے مذہبی رہنما سے ملاقات کا اعلان کیا۔ مگر کوئی بھی مسلمان ہلاکو خان سے ملنے کو تیار نہیں تھا۔بڑی مشکل سے مدرسے کے ایک نوجوان معلم کالدہان نے ہلاکو خان سے ملاقات کرنے کی حامی بھر لی۔ جاتے جاتے وہ ایک اونٹ، ایک بکری اور ایک مرغا بھی ساتھ لے گیا۔جب ہلاکو خان کے خیمے میں داخل ہوا تو اسے دیکھ کر ہلاکو خان نے کہا کہ پورے بغداد میں ایک بھی جید عالم نہیں ملا؟ کالدہان نے جواب دیا کہ اگر آپ کو بڑی داڑھی والا درکار ہے تو باہر اونٹ بھی کھڑا ہے۔

 

اس سے چھوٹی داڑھی والے سے بات کرنی ہے تو بکری بھی موجود ہے اگر کسی اونچی آواز والے سے بات کرنا چاہتے ہیں تو مرغا بھی ساتھ لایا ہوں۔ہلاکو خان یہ جواب سن کر کافی متاثر ہوا۔پھر کہنے لگا کہ میرا آپ سے پہلا سوال یہ ہے کہ تمہارے خیال میں میری بغداد آمد کا کیا مقصد ہے۔کالدہان نے جواب دیا کہ آپ ہمارے اعمال بد کے نتیجے میں یہاں تک آئے ہیں ہم نے اللہ کے نعمتوں کی ناشکری کی اپنے نیک لوگوں کی بے توقیری کی۔اللہ تعالی نے تمہیں عذاب کی صورت میں ہم پر مسلط کردیا۔ ہلاکو خان نے دوسرا سوال داغ دیا۔کہ مجھے یہاں سے کون نکال سکتا ہے۔کالدہان نے برجستہ جواب دیا کہ ہمارے اعمال ٹھیک ہوں گے، ہم اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا شروع کردیں۔بدعنوانی، چاپلوسی، غیبت، ریاکاری، دھوکہ دہی اور جھوٹ بولنے سے تائب ہونگے تو پھر تمہارے لئے بغداد میں رہنے کی گنجائش ہی نہیں رہے گی۔

 

ترک صدر کا کہنا تھا کہ جو قوم ظلم کو اللہ کی رضا قرار دے کر سہہ لے۔اور جو قوم اپنی حالت خود بدلنے کی جرات نہ کرے۔اللہ تعالی بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا۔آج پورے عالم اسلام کی وہی کیفیت ہے اس کے پاس تیل کی دولت بھی ہے، سونے، چاندی اور دیگر معدنیات کے ذخائر بھی ہیں، وافر آبی ذخائر بھی ہیں اور ترقی کرنے کا ہر سامان موجود ہے اس کے باوجود ہم محتاج، محکوم، مقہور اور مظلوم ہیں۔اور تن آسان اتنے ہیں کہ ہر چیز تیار مانگتے ہیں خواہ وہ ہماری قومی غیرت، حمیت، خود مختاری اور آزادی کی قیمت پر ہی کیوں نہ ملے۔رجب اردگان نے صرف ترک قوم نہیں، بلکہ پوری مسلم امہ کے خوابیدہ ضمیر کو جھنجھوڑ کر جگانے کی کوشش کی ہے۔حالی، اقبال، فیض،جالب اور دیگر زغماء کی ایسی ہی باتوں کو ہم نے شاعروں کا تحیل قرار دے کر بھلا دیا تھا۔شاید رجب اردگان کی صدائے جرس ہماری سماعتوں کو چھو کر ہمیں خواب غفلت سے جگا دے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
71490