
موقع اور توفیق ۔ تحریر صوفی محمد اسلم
موقع اور توفیق ۔ تحریر صوفی محمد اسلم
موقع اور توفیق دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ موقع ملکر بھی اگر توفیق نہ ملے تو ایسے مواقع کی کوئی اہمیت نہیں ۔ موقعے ہر کسی کو ملتا ہے مگر توفیق مخصوس لوگوں کو ہی ملتا ہے۔ توفیق اسے ملتا ہے جو طلب کرے مگر موقعے آزمائش کیلئے بھی دیا جاتا ہے۔ توفیق اللہ تعالی کی خاص عنایت ہے۔ ہر انسان کو زندگی میں اہم کام کے موقعے ملتے ہیں مگر ایسے لوگ ہی کامیاب سمجھے جاتے ہیں جسے موقعے کے ساتھ ساتھ توفیق بھی میسر ہو۔
انساں اللہ تعالی کے بندے ہیں اللہ اپنے بندوں سےبے پناہ محبت کرتا ہے۔اسی طرح خدا اپنے بندوں سے مختلف کام لیتا ہے ایسے کام لینے کو توفیق کہتے ہیں۔ ہر کام کی ایک نوعیت ہوتی ہے اور ہر انسان کے کچھ کرم ہوتے ہیں ۔ اللہ اپنے بندے کے کرم اور اس کے جستجو کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے مقدر کا فیصلہ کرتا ہے۔ یہ اللہ کی عنایت پر ، انسان کی کرم ،جستجو، نیت اور چاہت پر منحصر ہے کہ اس ہاتھوں سے کیسے امور سرانجام پاتے ہیں۔
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اس کا مطلب ہی یہی ہے کہ آپ کیا کرنا اور کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ اگر آپ کی نیت اور کام درست ہے تو اللہ تعالی اپکو ایسے ہی کام کرنے کے توفیق عنایت فرمائے گا۔ اپکے ہاتھوں سے ایسے کام سرانجام پائیں گے جو اپکے اور مخلوق خدا کیلئے بہتر ہوگا اور اس سے ایسے نتائج مرتب ہونگے جس سے آپ کو کبھی بھی پشیمانی نہیں ہوگی۔ اگر نیت درست نہیں تو وہ اگر کوئ کام سر انجام دینگے بھی اس میں خیر و برکت نہیں ہوگا اور آخر میں اسی کام پر آپ بچتائینگے۔
۔
عبدالستار کو ہی دیکھ لے اس کو ایسے کوئی بڑے مواقع بھی نہیں ملے وہ ایک عام شخض تھا مگر اس کے دل میں ایک نیک،ایک خواہش تھی کہ کس طرح بے کسوں کی مدد کی جائے ۔اس کیلئے محنت کیا اور مشقت ہوا۔ اللہ نے اس خواہش ، نیت اور جستجو کے بنیاد پر اسے ایسے توفیق عنایت فرمایا جو بڑے سے بڑے لوگوں کو نصیب نہیں۔ ایسے بھی اشخاص ہیں جنھیں ایسے ہزاروں مواقعے اور استطاعت کے باجود توفیق میسر نہیں ایا۔
پاکستان بھی ایک عنایت ہے ایک نعمت ہے ۔ اس کے سرزمین پر ہمیں آزادی ملی۔ یہ آزادی بھی ایک موقع ہے اب اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف امور کی سرانجامی کیلئے توفیق درکار ہے۔ اللہ کی طرف سے توفیق حاصل کرنے کیلئے ہمارے دلوں میں طلب اور نیک نیت ہونا چاہئے ۔ اسی کے ساتھ ساتھ اپنے کوتاہیوں سے سبق حاصل کرکے اپنے اعمال کی درستگی پر توجہ دینا ہوگا۔
75سالوں میں ہم ہر مواقع کو روندتے ہوتے گئے۔ کبھی بھی اس آزادی کا حق ادا نہیں کیا۔ نہ کبھی شکر کیا۔ شکر سے مراد زبانی لفظ شکر کا ورد کرنا ہی نہیں ہے بلکہ جو نعمت میسر ہے اس کے پورے پورے حقوق ادا کرنا ہوتا ہے۔ مثلا اگر ہاتھ ملا ہے اس سے نیک کام کرنے سے اس کا حق ادا ہوگا اور اگر عقل اللہ کی طرف ملا ہے تو عقل کو استعمال کرنا ہی شکر کہلائے گا۔
دنیا میں اگر کوئی براچیز ہے وہ غلامی یہ اللہ کو بھی پسند نہیں۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں غلاموں کو آزاد کرنے کا رواج عام تھا۔ غلام آزاد کرنے کو سب سے بڑی نیکی سمجھی جاتی تھی۔ پھر مسلمانوں کو غلام بننا اللہ کو کیسے پسند آئے گا؟ مگر پھر بھی مسلمان غلام بنتے جارہے ہیں آخر کیوں؟۔ کیا یہ صرف آزمائش ہے؟۔ اگر یہ آزمائش ہے تو آزمائش کے ذریعے سے اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کو آزماتا ہے۔ کیا ہم اتنے نیک ہوگے ہیں کہ ہمارے ایمان کی آزمائش ضروری ہوگیا؟۔ چلو یہ مان لیتے ہیں کہ آزمائش ہے تو مسلمانوں کے اعمال کی جانچ کرنا بھی تو ضروری۔ ہمارے اعمال اس قابل ہیں کہ ہمیں آزمائش میں ڈالا جائے۔
ہمارے اعمال کیا ہیں ۔ مسلمانوں کے کام دیکھنے سے تو بہت افسوس ہوتا ہے ۔ چھوٹے دکاندار سے لیکر فیکٹری کے مالک تک ملاوٹ کرتے ہیں، سکول ٹیچر جو ایک مقدس پیشہ سے لیکر پروفیسر تک پیسے کمانے کی چکر میں پڑے ہیں، دفاتر میں چپراسی سے لیکر آفیسر تک چائے پانی کے پیسوں سے پیٹ پالتے ہیں، فورس کے سپاہی سے لیکر بڑے افسر تک طرفداری کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں، سیاسی اشخاص جھوٹ ، موقع پرستی، مفاد پرستی اور آنا پرستی کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں ۔ ڈاکٹرز، بیوروکریٹکز بلکہ نہ ایک ادارہ نہ کوئی ایک شخص ہے جس پر قوی بروسہ کیا جاسکے ۔ ایسے حالات میں ہم خود کو یہ تسلی دینا کہ یہ آزمائش ہے تو یہ انتہائی نادانی ہوگی۔
تاریخ گواہ ہے کہ جتنے بھی غیرمعمولی اقوام گزرے ہیں وہ اپنے اسطاعت سے بڑھ کر کوشش کیے ہیں۔ نہ کہ آزمائش کے آڑ میں خود کو دھوکہ دیتے رہے ہیں ۔ بہتر یہ ہوگا کہ ہم ان مشکلات کو کوتاہیوں کی سزا ہی سمجھے اور اپنے کوتاہیوں سے توبہ کرکے راہے راست پر آجائے۔ آزادی کی نعمت کے حق ادا کرنے کی کوشش کرے۔ شکر کے اصل مطلب کو سمجھے۔ اگر ایک شخض بین الاقوامی سطح پر خود کو منواسکتا ہے دنیا کا سب سے بڑا ایمبولینس سروس تیار کرسکتا ہے، تو کیا 23کرور عوام ایک ملک کو سپر پاور نہیں بناسکتے۔
وماعلینا الاالبلاغ