Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ایک اکیلا دو گیارہ – میری بات؛روہیل اکبر

Posted on
شیئر کریں:

ایک اکیلا دو گیارہ – میری بات؛روہیل اکبر

ایک بڑی مشہور ضرب المثل ہے کہ ایک اکیلا دو گیارہ جسکا عملی مظاہرہ اب ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے پہلے میاں نواز شریف اقتدار میں آتے تو پیپلز پارٹی والوں کی ایسی تیسی کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑتے اور پھر جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آتی تو وہ ن لیگیوں کو لوہے کے چنے چبواتی ان دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں پر جتنے کیس بھی چلے یا اب تک چل رہے ہیں سب ایک دوسرے کی مہربانیوں سے بنے بھی اور اب ختم بھی ہوئے اور پھر بات یہاں تک پہنچی کہ شہباز شریف نے آصف علی زرداری کو لاہور اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی ملکی دولت نکالنے کا بھی ببانگ دہل اعلان کرڈالادوسری طرف پیپلز پارٹی والے بھی کم نہ تھے انہوں نے بھی میاں صاحبان کو ضیاء کا بیٹا اور ملک دشمن سمیت بہت کچھ کہا ان دونوں کی لڑائی کے درمیان میں سے عمران خان وزیر اعظم بنا تو پھر میاں برادران اور زرداری خاندان نے ایک ہونے کا فیصلہ کیا ماضی کے یہ دونوں دشمن نہ صرف بغل گیر ہوگئے بلکہ انہوں نے اپنے ساتھ مزید 9سیاسی جماعتوں کو شامل کرکے عمران خان کی حکومت کا نہ صرف تختہ الٹ دیا بلکہ اپنی پرانی پریکٹس یعنی پکڑ دکڑ بھی شرع کردی ڈاکٹر شہباز گل سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ اعظم سواتی،فواد چوہدری اور شیخ رشید تک پہنچ گیا اور ابھی فلحال رکنے والا بھی نہیں ان گرفتاریوں میں صحافی بھی شامل ہیں

 

رات میں مال روڈ سے مغل پورہ کی طرف نہر سے آرہا تھا تو زمان پارک میں لوگوں کا مجمع تھا سڑک پر رش اتنا تھا کہ ٹریف رینگ رہی تھی 2منٹ کا سفر 15منٹ میں ختم ہوا یہ سب عمران خان کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے پہنچے ہوئے ہیں لیکن ان لوگوں کا کیا قصور ہے جو پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہیں اور انہیں مزید تنگ کیا جارہا ہے اس رش کی وجہ سے لوگوں کا پیٹرول ضائع ہورہا ہے جو اس حکومت نے بڑھا کر عوام کی مشکلات میں اضافہ کررکھا ہے مہنگائی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ عام انسان ہر روز جیتا ہے اور ہر روز مرتا ہے آٹا،گیس اور بجلی نہ ہونے کے برابر ہے اور عوام لائنوں میں خوار ہورہے ہیں جبکہ عوامی خدمت کے دعوے داروں نے صرف اپنا الو سیدھا کیا ہوا ہے ہمارا حکمران طبقہ صرف ایک منٹ کے لیے یہ تصور کرلے تو انکے رونگٹے کھڑے ہو جائینگے کہ حمزہ شہباز سستے آٹے کی لائن میں کھڑا ہوا ہے مریم کی شادی جہیز نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہو رہی اوربلاول کے پاس سردیوں میں پہننے کے لئے گرم کپڑے نہ ہوتے مونس الہی کا فروٹ والا ٹھیلہ کوئی سرکاری اہلکار آکر الٹ دیتا مولانا اسد کسی چوراھے پہ کھڑا چھلیاں بیچ رہا ہوتا فرض کریں موسیٰ گیلانی سستے بازار سے خریداری کررہا ہوتا لیکن فرض بھی کیسے کریں اوربھلا یہ کیسے ممکن ہے ان سب کو تو یہاں کی آب و ہوا راس آچکی ہے

 

ان سب کو تو جمہوریت کا دودھ مل رہا ہے یہ سب تو انجوائے اور موج مستی کررہے ہیں یہ سب تو خوشحال ہیں جو کم خوش حال تھے وہ اب مزید ہوگئے ہیں پاکستان میں کسی کوعلم نہیں تھا صرف نواز شریف سرے محل سرے محل کرتا تھا نواز شریف زرداری کومسٹر 10پرسنٹ کہتا تھا جبکہ بی بی بلکہ ابھی کل تک بلاول نواز شریف کو ضیا ء الحق کا بیٹا کہتا تھا پھر کائرہ سمیت سب ایون فیلڈ کا ذکر کرتے تھے پھر کسی نے ان کو بتایا کہ ایسی باتوں سے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے چنانچہ سب محتاط ہوگئے ایک نیا لفظ مفاہمت مارکیٹ میں آیا اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے سجن دشمن سبھی ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے اور ماضی کے سیاسی دشمن یکجان اور متحد ہوگئے کیونکہ سب کو سمجھ آگئی تھی کہ اتفاق میں برکت جبکہ ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں سب مل جل کر ہی چلیں گے تو تو فائدے میں رہیں گے چنانچہ سرخے،سبزے،نیلے پیلے،کالے، گورے،لیفٹسٹ، رائٹسٹ،دائیں اور بائیں والے،سوشلسٹ،قوم پرست،مذہبی اور پروگریسو سب اکٹھے ہوگئے سب ایک پیج پر آگئے اور پھر سب اقتدار کی بہتی گنگا میں نہانے لگے دیکھتے ہی دیکھتے سب ایک دوسرے کے رنگ میں رنگ گئے

 

بس عمران خان نہ سمجھا کہ سیاست میں سب کارڈرز ایک دم شونہیں کئے جاتے وہ سب کے سامنے پتے پھینٹتا رہا اور اس نے توکبھی بھی پتے چھپا کے نہیں رکھے کرکٹ کھیلتا تھا توبلا زمین پہ نہیں رکھتا تھاسیاست میں آیا تو پاوں زمین پہ نہیں رکھتااب آئسولیٹ ہے ادارے،سسٹم اور تمام سیاستدان اس کے خلاف ہیں اور تواورپی ٹی آئی میں موجود کچھ سیاستدان بھی اس سے دور ہی ہیں جن پہ تکیہ تھا اب وہی پتے ہوا دہے رہے ہیں ایک بات تو طے ہے کہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں کل کے دشمن جمہوریت کی خاطر ایک ہو سکتے ہیں تو کل کو اور بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے رہی بات جمہوریت کی اسے تو ہم نے عوام بہت دور رکھا ہوا سیاستدانوں کو اسکی فکر بھی نہیں ہے اگر فکر ہے تو ججوں کو ہے،جرنیلوں کو فکر ہے،اہل قلم اور سول سوسائٹی کوجمہوریت کی فکر ہے۔صحافیوں اور اداکاروں کو فکر ہے اگر فکر نہیں ہے تو سیاستدانوں کو نہیں ہے اور جمہوریت وہ لفظ ہے جس کا جمہور کے ساتھ نہ کوئی تعلق ہے نہ واسطہ جمہوریت ایک ایسی گائے ہے جس کا دودھ چند وڈیرے،سرمایہ دار،جاگیر دار،صنعتکار پیتے ہیں اور اس کا گوبر 22 کروڑ عوام صاف کرتے ہیں یہی سچائی ہے اور یہی حقیقت بھی باقی سب مفروضے ہیں آپ یہ بھی فرض کرسکتے ہیں کہ آپ نے کچھ نہیں پڑھااور سکون سے بیٹھیں ہیں خوامخواہ خون جلانے کا کیا فائدہ کیونکہ ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں جہاں ایک پلیٹ بریانی دیکھی وہیں سکون سے بیٹھ گئے اور پھر اسی پلیٹ کا حق ادا کرنے کے لیے ہم ایک دوسرے سے دست وگریبان ہو جاتے ہیں کاش ہم بھی اپنے مفادات کی خاطر متحد ہو کر یک جان ہو جائیں اللہ تعالی ہمیں سوچنے سمجھنے اور پھر عمل کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔آمین


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
71157